اسلام آباد (صباح نیوز)سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کنوردلشاد نے کہا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے حوالہ سے پانچ سال کا عرصہ درکار ہو گایہ بڑے اعلیٰ سطح کے معاملات ہیں اور ان کو اسٹیپ بائی اسٹیپ لے کر چلنا ہو گا، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مرضی کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی ،چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کے اختیارات کو وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی اسمبلیاں کم نہیں کرسکتیں ، الیکشن کمیشن آئین کے مطابق چلے گا۔
ان خیالات کااظہار کنوردلشاد نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ ہمارے اوورسیز پاکستانیوں نے پاکستان کی کیا خدمت کی ہے، بیرون ملک مقیم والدین اپنے بچوں کو پیسہ بھیج رہے ہیں ، اگر وہ پیسہ نہیں بھیجیں گے تو وہ پیسہ وہاں ضبط ہو جائے گا جہاں وہ کام کرتے ہیں، وہ اپنے پیسے اپنے گھر والوں کو بھیج رہے ہیں، وہ پیسے نہیں دیں گے تو پیچھے ان کے گھر والے بھوکے مرجائیں گے، وہ ہمارے اوپر کیا احسان کررہے ہیں، یہ قانون سازی کرنی پڑے گی کہ دوہری شہریت کس کی ہے ، وہ کس کے وفادار ہیں ، یہ تونہیں ہوسکتاکہ آنکھیں بند کرکے90لاکھ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے دیا جائے۔
کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قائمہ کمیٹی کے سامنے بڑے جرائت مندانہ ریمارکس دے دیئے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کوئی پابند نہیں ہے کہ2023 میں انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے زریعہ کروائے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے اس نظام کو اپنانے کے لئے20سال لگائے یعنی1984میں انہوں نے شروع کیا اور2004میں یہ مکمل ہوا، پاکستان میں ڈیڑھ سال میں یہ کیسے مکمل ہوسکتا ہے۔ بھارت نے بھی پائلٹ پراجیکٹ بنائے تھے اور سٹیپ بائی سٹیپ ان پر عملدرآمد کیا اور20سال کے بعد پورے بھارت میں نافذکردیا۔ پاکستان میں بھی اب یہ کام شروع ہونے والا ہے یہ سٹیپ بائی سٹیپ چلے گا ، کہیں نہ کہیں یہ پولنگ سٹیشن پر کریں گے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومتی وزراء جو ہیں وہ اتنا جھوٹ کیوں بولتے ہیں ، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پائلٹ پراجیکٹس کے حوالہ سے رپورٹ18ماہ قبل اسپیکر قومی اسمبلی کو پیش کردی تھی، چیئرمین سینیٹ کو بھی بھیج دی تھی اور وزارت پارلیمانی امورکے پاس بھی موجود ہے۔ حکومت کے وزراء اور ترجمان بار، بار کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ2017کے سیکشن103کی خلاف ورزی کی، حکومت نے رپورٹ ہی نہیں پڑھی۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا تھا کہاسپیکر صاحب کے چیمبر میں رپورٹ18مہینے پڑی رہی اورانہوں نے وہ لفافہ ہی نہیں کھولا، یہ رپورٹ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔ پائلٹ پراجیکٹ کے تحت الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ یہ ناقابل عمل منصوبہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے قانون کو اگر اپوزیشن سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کیا جاتا ہے تواس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فریق بنایا جائے گا، الیکشن کمیشن کو فریق بنائے بغیر تو وہ پیٹیشن داخل ہی نہیں ہوسکتی، وزارت قانون کو فریق بنایا جائے گا، حکومت کو فریق بنایا جائے گا،
اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو فریق بنایا جائے گا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان تو بڑا اہم فریق بنے گا اور جب الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنا جواب داخل کروائے گا تو حکومت کو دن میں تارے نظر آجائیں گے۔
ایک سوال پر کنوردلشاد کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل222میں باقائدہ نام لکھا ہوا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کے اختیارات کو وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی اسمبلیاں کم نہیں کرسکتیں اورالیکشن کے معاملہ میں مداخلت نہیں کرسکتیں ، الیکشن کمیشن آئین کے مطابق چلے گا، قانون سازی کرتے رہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے حوالہ سے پانچ سال کا عرصہ درکار ہو گا اور اس مقصد کے لئے 250ارب روپے خرچ ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے جو ابتدائی تخمینہ لگایا ہے وہ ڈیڑھ کھر ب سے دو کھرب روپے ہیں اور یہ آگے بھی جاسکتا ہے۔ نولاکھ الیٹرانک ووٹنگ مشینیں خریدنی پڑیں گی،
اس کے لئے 75ارب روپے درکار ہیں۔ چار لاکھ آئی ٹی سے متعلقہ افراد کی تربیت ہونی ہے، الیکشن کمیشن کا عملہ13لاکھ پر مشتمل ہے جنہوں نے اپنی ڈیوٹی انجام دینی ہے جس میں پریزائیڈنگ افسران بھی شامل ہیں، یہ بڑے اعلیٰ سطح کے معاملات ہیں اور ان کو اسٹیپ بائی اسٹیپ لے کر چلنا ہو گا۔