سدھو سے جپھی مہنگی پڑ گئی ہے، کرتار پور راہداری پاکستان کی خودمختاری پر ایک سوال..تحریر: وجیہ احمد صدیقی


کیا کرتار پور عملاً بھارت کا حصہ بن گیا ہے ؟کیونکہ وہاں داخلے کے لیے بھارتی حکومت پرمٹ جاری کرتی ہے، پاکستان کی حکومت بھارت کے اس اختیار کو تسلیم کرتے ہوئے اس پرمٹ پر بھارتی شہری کو کرتار پور آنے کی اجازت دےہے دیتی ہے چاہے وہ شخص سکھ ہو یا نہ ہوپاکستان آنے کے باوجود بھارتی شہری کے پاسپورٹ پر پاکستانی امیگریشن کی مہر نہیں لگے گی یعنی بھارتی پاکستان تو آنا چاہتا ہے لیکن اپنے پاسپورٹ پر پاکستان کی مہر نہیں لگوانا چاہتا ہے، اس کے پاسپورٹ پر امریکہ اور برطانیہ کی مہریں اس کے لیے قابل فخر ہیں لیکن پاکستان کی مہر سے اسے نفرت ہے کیونکہ بھارتی ذہن نے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا ہے اور اسی لیے وہ کرتار پور کو اپنا ہی حصہ سمجھتے ہیں ۔ پاکستان کی حکومت کے جن لوگوں نے یہ شرط تسلیم کی انہوں نے نظریہ پاکستان سے کھلی غداری کا ارتکاب کیا ہے اور پاکستان کی خود مختاری کا سودا کیا ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر بھارتی قانون کی پاسداری ہو، پاکستان کی حکومت نے اس پرمٹ کو تسلیم کیا ہے جس پر لکھا ہوا ہے کہ کرتار پور جانے والا بھارت کی سالمیت ، سیکورٹی خود مختاری کی خلاف ورزی نہیں کرے گا اور بھارتی قوانین کی کرتار پور میں پاسداری کرے گا۔جبکہ پاکستان کا آئین اپنے تمہیدی کلمات میں کہتا ہے کہ “دستور پاکستان میں وفاق کے علاقوں کی سالمیت اس کی آزادی اور زمین ،سمندراور فضا پر اس کے حقوق مقتدرکے بشمول جملہ حقوق کی حفاظت کی جائے ۔ ” یعنی پاکستان تمام علاقوں کی حفاظت کی جائے گی وہاں پاکستان کے قانون کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے ۔

پاکستان کی حدود میں داخلے کے لیے پاکستانی حکومت کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے جسے ویزا کہا جاتا ہے ۔ جبکہ افغانستان سے آنے والے ایک خاص اجازت نامے کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں وہ اجازت نامہ بھی حکومت پاکستان جاری کرتی ہے ۔پاکستان کے امیگریشن قوانین کے مطابق کوئی بھی غیر ملکی پاکستانی حکومت کی اجازت کے بغیر پاکستان کی حدود میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کی حدود کا تعین آئین پاکستان کے آرٹیکل 2 میں کردیا گیا ہے ۔

اسی آرٹیکل 2 کی ذیلی شق الف کے مطابق پنجاب پاکستان کا حصہ ہے جہاں کرتار پور واقع ہے ۔لیکن اس کرتار پور میں داخلے کے لیے اجازت نامہ بھارتی حکومت جاری کرتی ہے پاکستانی حکومت کا کردار محض چوکیدار کا ہے۔بھارتی حکومت اپنے شہریوں کو ہدایات جاری کرتی ہے کہ کرتار پور جانے کا اجازت نامہ اس سے حاصل کریں۔جو پرمٹ بھارتی حکومت دیتی ہے وہی پاکستانی حکومت تسلیم کرتی ہے ۔یہ ایک شرمناک معاہدہ ہے اور ناقابل معافی معاہدہ ہے جس میں غیر ملکیوں کو کرتار پور میں داخلے کی اجازت حق بھارتی حکومت کے حوالے کردیا گیا ہے ۔جوکہ پاکستان کے آئین کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔

جنرل جاوید قمر باجوہ نے یہ اجازت سکھوں کے مقدس مقام تک ان کی رسائی کے لیے دی تھی ہر بھارتی شہری کے لیے نہیں تھی لیکن بھارتی حکومت سکھوں کے ساتھ ساتھ ہندو ، عیسائی اوردیگر مذاہب کے ماننے والوں کو پرمٹ جاری کررہی ہے ۔پاکستان کے آئین میں اقلیتوں کو ان کے حقوق دیے گئے ہیں ،سکھوں کے مقدس مقامات تک ان کی رسائی کو ممکن بنانا ہماری آئینی ، اخلاقی اور اسلامی ذمہ داری ہے لیکن ان کے مقدس مقام پر کسی دوسرے مذہب کے فرد کو جانے کی اجازت دینا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ کسی بھی دہشت گردی کا سبب بن سکتا ہے ۔

بھارتی ہندو محض تفریح کی خاطر یہا ں آتے ہیں انہیں سکھ مذہب سے نہ دلچسپی ہے اورنہ ہی ان کے دل میں اس مذہب کا کوئی احترام ہے اس کی سب سے بڑی مثال 1984میں گولڈن ٹمپل پر بھارتی فوج کا حملہ ہے ۔ جہاں سکھ عبادت گاہ کے تقدس کو بری طرح پامال کیا گیا تھا جس کے زخم آج بھی سکھوں کے دلوں میں تازہ ہیں ۔کرتار پور جانے والے ہر بھارتی شہری سے پرمٹ پر درج ہدایات کو ماننے کی تحریری یقین دہانی حاصل کی جاتی ہے کہ گر دوارہ کرتار صاحب میں ایسی کوئی حرکت نہیں کریں گے جس سے بھارت کی سالمیت اوراقتدار اعلیٰ( سارونٹی) اورسلامتی ( سیکورٹی)کو نقصان پہنچے وہاں آپ بھارت کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ یہ عہد لیا جاتا ہے کہ بھارت کے کرتار پور کے لیے طے شدہ قواعد کی پاسداری کی جائے گی ۔یہ کہیں بھی نہیں لکھا ہے کہ پاکستان کی سالمیت اقتدار اعلیٰ اور سلامتی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے ۔

اس پرمٹ پر اس حلف نامے کی کیا ضرورت تھی ؟یہ اس لیے ہے کہ وہاں آنے والے ہر بھارتی زائر کے ذہن میں یہ نقش ہوجائے کہ کرتار پور بھارت کا حصہ ہے ۔پاکستان کی حکومت کو سکھ زائرین کے لیے اسے کھولنا چاہیے اورآئین پاکستان کے آرٹیکل 2 کی رو سےپنجاب پاکستان کا حصہ ہے اور ضلع نارو وال پنجاب کا حصہ ہے جہاں کرتار پور واقع ہے جہاں 1965میں بھارتی جہاز بم گرا چکا ہے جو پھٹ نہ سکا اسے معجزے کے طور پر کرتار پور میں رکھا گیا ہے ۔اتنی فراخی دل ٹھیک نہیں ہوتی ۔کیا بھارت نے پاکستانی مسلمانوں کے لیے ایسی کوئی رعایت دی ہے کہ پاکستانی شہری اجمیر حکومت پاکستان کی اجازت سے جاسکتے ہیں ؟ جو پاکستان کی سرحد کھوکھراپار سے چند سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔

لیکن ایسا نہیں ہے اور نہ ہی بھارت اس کی اجازت دے گا ایسی احمقانہ حرکتیں پاکستانی بیوروکریسی اورموجودہ حکومت ہی کرسکتی ہے۔کرتار پور راہداری کو بھارت نے بند کردیا اور پھر بھارت نے کھول دیا حکومت پاکستان کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے ۔ اب ضروری یہ ہے بابا گور نانک کے 552 ویں جنم دن کی تقریبات کے بعد وہاں آنے کے لیے ویزا کی شرط عائد کردی جائے۔ اس میں آسانی یہ ہوسکتی ہے کہ ویزا کرتار پور تک جانے کے لیے باڈر پر ہی دیا جائے جن کے پاس بھارتی گردوارہ پربندھک کمیٹی کا اجازت نامہ ہو تاکہ محض تفریح کی غرض سے آنے والے متعصب بھارتیوں کی حوصلہ شکنی ہو جو پاکستان کی مہر اپنے پاسپورٹ پر نہیں لگوانا چاہتے مگر پاکستان آنا ضرور چاہتے ہیں ۔

کورونا کی وجہ سے بھارتی حکومت نے کرتار پور راہداری کو بند کردیا تھا ۔ لیکن جب کورونا کا زور ٹوٹاتو بھارتی حکومت پرکرتار پور راہداری کھولنے کے لیے اپنے ملک میں ہی دبائو بڑھنے لگاتوبی بی جاگیرکور صدر شرومنی گورودوارہ پربندھک کمیٹی امرتسر نے جہاں مودی سرکار کو دوسری بار خط لکھا تو وہیں پر بھارتی پنجاب، مقبوضہ جموں و کشمیر اور دہلی کے 11 سکھ رہنمائوں نے نریندر مودی سے ملاقات میں راہداری کھولنے کی تحریری عرضداشت پیش کر دی۔ کرتار پور راہداری کھولنے کے حوالے سے بی بی جاگیرکور، صدر شرومنی گورودوارہ پربندھک کمیٹی شری امرتسر، پاکستان سکھ گورودوارہ پربندھک کمیٹی ہم زبان ہوگئے ۔

بھارتی وزیر اعظم کولکھے گئے خط میں بی بی جاگیر کور نے واضح کیاکہ شرومنی گورودوارہ پربندھک کمیٹی امرتسر دنیا بھر میں موجود تاریخی گورودواروں اور ان سے جڑے معاملات دیکھتی ہے ،کوروناکے خاتمہ کے بعد حکومت پاکستان نے سکھ یاتریوں کے لئے راہداری کھول دی ،اس حوالے سے 25مارچ 2021 کو کرتار پور راہداری کھولنے کے لئے بھارتی وزیر اعظم کو خط لکھا گیا،راہداری بھارت کی جانب سے مارچ2020سے بند ہے ،دنیا بھر میں سکھ مذہب کے پیروکار نومبر میں بابا گورونانک کا 552واں جنم دن منا رہے ہیں۔دنیا بھر کی سکھ تنظیمیں متعدد بار کرتار پور راہداری کو کھولنے کا مطالبہ کر چکی ہیں،حکومت پاکستان نے سکھ یاتریوں کو کرتار پورراہداری کے راستے پاکستان یاترا کی اجازت دی جو اہم اورمثبت اقدام ہے ۔

موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ بھارت سرکار سکھ یاتریوں کو گورودوارہ دربار صاحب کی یاترا کے لئے کرتار پور راہداری کے راستے پاکستان جانے کی اجازت دے اور مارچ2020سے بند کرتار پور راہداری کھولے ۔ بھارتی پنجاب، مقبوضہ جموں و کشمیر اور دہلی سے تعلق رکھنے والے 11رکنی سکھ رہنمائوں کے وفد نے نریندر مودی سے ملاقات کر کے راہداری کھولنے کی تحریری عرضداشت پیش کی جسے انہوں نے منظور کرلیا اور سکھ ان کے ممنون احسان ہوئے اور اجازت ملتے ہی بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ چرنجیت سنگھ دندناتے ہوئے کرتار پور پہنچ گئے ۔پاکستان کو سکھوں کے مقدس مقامات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے لیکن پاکستان کی سرزمین پر پاکستان کے قانون کا نفاذ بھی یقینی بنانا چاہیے ۔ پاکستان کی جانب سے بھارت کو کل بھوشن سے لے کر کرتار پور تک رعایت ہی رعایت دی جارہی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ کرتار پور سے قادیان کا فاصلہ ساڑھے 45 کلو میٹر ہے۔کیا کچھ لوگ وہاں سے بھی کرتار پور آتے ہیں ۔