سیاسی عدم استحکام ملکی مسائل کی جڑ ہے، حل آئین کی بالادستی میں مضمر ہے، ماہرین


راولپنڈی(صباح نیوز)پاکستان کا آئین اپنے آغاز سے ہی نہ صرف قومی اتفاقِ رائے کی علامت رہا ہے بلکہ سیاسی عدم استحکام اور ہنگامہ خیزی کے ادوار میں بھی اس نیقومی یکجہتی کے عنصر کے طور پر کام سر انجام دیاہے۔ آئین میں موجود بصیرت، اس کی جامعیت اور طاقت کے توازن نے اسے مختلف فوجی حکمرانوں کے ادوار اور سیاسی چیلنجوں کے دوران بھی قوم کوایک سمت میں رواں رکھنے کے قابل بنائے رکھاہے۔

یہ مشاہدات مقررین نے پاکستان کے 75 سال: دستور، عوامی نمائندگی اور طرزِ حکمرانی کے عنوان سے ہونے والے ایک سیمینار میں پیش کیے جس کا انعقاد انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد اورجامعہ فاطمہ جناح برائے خواتین کے شعبہ قانون نے باہمی اشتراک سے کر کے راولپنڈی کیمپس میں کیا ۔

سیمینار کی صدارت خالد رحمن، چیئرمین آئی پی ایس اور پروفیسر ڈاکٹر عذرا یاسمین، ڈین ، کلیہ قانون نے مشترکہ طور پر کی جبکہ نظامت کے فرائض اسسٹنٹ پروفیسراورانچارج شعبہ قانون ، ڈاکٹر نادیہ خادم نے ادا کیے۔ مقررین میں ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی، چیئرمین گیلپ پاکستان اور گیلانی ریسرچ فاونڈیشن پاکستان؛ ڈاکٹر عزیز الرحمن، ڈائریکٹر، سکول آف لا، قائداعظم یونیورسٹی ،اور سینئر ریسرچ فیلو آئی پی ایس اور حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب آئین پاکستان اور اسلام: مارشل لا، عدلیہ اور پارلیمنٹ کا کردار کے مصنف ڈاکٹر شہزاد اقبال شام شامل تھے۔ اس موقع پر آئی پی ایس کے بانی چیئرمین پروفیسر خورشید احمد کی سینیٹ کی تقاریر اور علمی تحریروں پرمبنی حال ہی میں شائع کردہ تالیف آئین-اختیارات کا توازن اور طرزِ حکمرانی کی بھی رونمائی ہوئی اور آئی پی ایس کے چیئرمین نے شرکا کو اس کتاب کا تعارف کروایا۔

مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے میں مسلسل پیش رفت کر رہا ہے اور وہ بحران جو بعض اوقات اس پیشرفت کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں وہ اسی طرح کی عارضی رکاوٹیں ہیں جن کا سامنا دنیا کی تمام اقوام نے کسی نہ کسی وقت کیا ہے۔ یہ ادراک اور فہم کا معاملہ ہے، تاہم یہ محاسبہ ضروری ہے کہ قوم سے غلطی کہاں ہوئی ہے اور اس مسئلے کا مناسب حل تلاش کرنے کے لیے ایک موثر نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی تجویز کیا گیا کہ اس اقدام کا ایک حصہ آئینی مسائل کے مطالعہ کے لیے ایک تحقیقی مرکز تشکیل دے کر کیا جا سکتا ہے جو ماہرین کی آرا کو سامنے لانے اور آئین پر غیر جانبدارانہ بحث اور تحقیق کی ضرورت کو پورا کرنے میں مدد دے۔ پاکستان کی تخلیق کے 75 سال مکمل ہونے کے قریب ہیں۔دستور، عوامی نمائندگی اور طرزِحکومت کے حوالہ سے ان سالوں کے دوران قوم کی طرف سے اتفاق کا مظاہرہ، قیام پاکستان سے لے کر آئین کی تشکیل تک ایک مسلسل جدوجہد کا ہے۔ 1973 کے آئین میں ترامیم کی صورت میں مختلف تبدیلیاں کی گئی ہیں جس سے درحقیقت اس کی ساخت میں بہتری آئی ہے۔ مقررین نے کہا کہ پارلیمنٹ نے قومی اتفاق رائے سے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کی اصل روح کو برقرار رکھا اور اسے بحال کیا اور اہم ترامیم کے ذریعے اس سلسلے کو برقرار رکھا۔ فوجی حکومتوں کی طرف سے آئین میں لائی گئی زیادہ تر غیر مقبول تبدیلیوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔ تاہم، اعلی عدلیہ کے کردار کو احتیاط سے جانچنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس نے سپریم قانون کی تشریح کے اپنے اختیارات کو اپنی مطلوبہ ذمہ داری سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ کے کردار کا جائزہ لینے کے لیے آئینی بحث ضروری ہے۔ ان کا موقف تھا کہ ملک کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کی جڑ سیاسی عدم استحکام ہے۔ اگر اس دائرہ کارمیں استحکام لایا جائے تو ملک بغیر کسی رکاوٹ کے ترقی کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان توازن قائم کرنے کا مشورہ دیا۔ آئین کو کئی بار معطل کیا گیا ہے اور اس میں ترامیم لائی گئی ہیں لیکن جب تک پارلیمنٹ کے کردار پر اعتمادکیا جاتا رہے گا،اسے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ریاست مدینہ کا تصور حالیہ سیاسی بحث کا حصہ رہا ہے حالانکہ یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ اس بحث کے محرک اس سلسلے میں کتنے مخلص تھے ۔ تاہم، انھوں نے کہا کہ یہ ملک کے نظامِ حکمرانی کے لیے تفصیلی رہنمائی کا ایک حوالہ ہو سکتا ہے ۔ ملک پر متعدد بار مارشل لاء لگ چکے ہیں، تاہم اسے نافذ کرنے والوں کو کچھ سالوں کے بعد کسی نہ کسی شکل میں عوامی نمائندگی حاصل کرنی پڑی ہے۔ ایوب خان کو بنیادی جمہوریتوں کے نظام کا سہارا لینا پڑا، ضیا الحق کو یہ تاثر دینے کے لیے ریفرنڈم کرانا پڑا کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں، یہاں تک کہ پرویز مشرف کو بھی بلدیاتی انتخابات اور ریفرنڈم کی طرف رخ کرنا پڑا۔