دھاندلی کی پیداوار حکومت بلدیاتی انتخابات نہیں کرواسکتی،مولانا فضل الرحمن


اسلام آباد(صباح نیوز) اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ دھاندلی کی پیداوار حکومت بلدیاتی انتخابات نہیں کرواسکتی، آئینی ماہرین سے مشاورت کے بعد الیکشن کمیشن کو تحفظات سے آگاہ کریں گے ۔

نیوز کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ پی ڈی ایم سے وابستہ سیاسی جماعتوں سے بھی میری مشاورت ہوئی ہے ہم الیکشن کمیشن کے اس اقدام پر اپناردعمل دینا چاہتے ہیں۔

ہمارا دوٹوک واضح اورغیرمبہم موقف چلا آرہا ہے کہ ہم 2018 کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے ان نتائج کی بنیاد پر جو حکومتیں قائم کی گئی ہیں وہ ناجائز اور جعلی ہیں جو حکومت خود دھاندلی کی پیداوار ہو اس کی نگرانی میں بلدیاتی الیکشن کیسے قبول کیے جاسکتے ہیں۔ ہر چند کہ الیکشن کمیشن یہ کہے کہ ہماری نگرانی میں ہوتے ہیں لیکن ارباب اقتدار ہر صورت میں موثرہوتے ہیں اور وہ اپنے زیر اثر انتظامیہ کو الیکشن میں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرسکتے ہیں اور سرکاری وسائل بھی استعمال کرسکتے ہیں پھر الیکشن کمیشن نے خود یہ کہا ہے کہ ہم ووٹوں کی تصدیق کا ایک سلسلہ شروع کررہے ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اس بات کا اعتراف کررہا ہے کہ ووٹر لسٹ مشکوک ہے اس لئے اسے ویری وفکیشن کی ضرورت پڑ رہی ہے اس طرح مشکوک انتخابی فہرستوں کی بنیاد پر الیکشن کرانے کا کیا معنی ہے ایسی صورتحال میںعجیب ملحوبہ یہ ہے کہ ویلج کونسل کے انتخابات غیر جماعتی ہوں گے اورتحصیل الیکشن جماعتی بنیاد پر ہوں گے۔

ایک ہی بلدیاتی نظام ہے اس بلدیاتی نظام کے تحت ایک سطح غیرجماعتی ہے  اور دوسری سطح جماعتی بنیادوں پر ہے اور پھر یہ بھی کہ جو ویلج کونسل کے انتخاب  میں لوگ کامیاب ہو جائیں گے ان کویہ  اختیار ہوگا کہ وہ 24 یا48 گھنٹے کے اندر کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں جس بلدیاتی ممبران کا کام محلے کی خدمت ہے اور اس محلے کیلئے اسے فنڈ چاہیے حکومت پی ٹی آئی کی ہوگی اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تمام ممبران کو وہ اس مجبوری کے تحت پی ٹی آئی میں شامل کریں  گے اور پھر کہیں گے ہم سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے ہے اس لحاظ سے ہم اس بلدیاتی الیکشن کو تسلیم نہیں کرتے اس سلسلے میں ہم اپنے ماہرین  قانون سے بھی مشورہ کررہے ہیں تاکہ الیکشن کمیشن کی طرف رجوع کیا جاسکے اوربراہ راست ان کے سامنے اپنے تحفظات پیش کیے جاسکیں تاکہ ہم مزید قانونی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں رہیں

انہوں نے کہاکہ فوری طورپر اس سے وابستہ  ایک اہم مسئلے پر بات کرنا ناگزیر ہے کہ تحریک لبیک کے کارکن اسلام آباد کی طرف آرہے ہیں قطعہ نظر اس کے کہ ان کا مطالبہ صحیح ہے یا غلط لیکن ان کا جو بھی مطالبہ ہو اس کیلئے احتجاج کرنا ان کا جمہوری قانونی حق ہے۔ پہلے بھی لاہور میں ان پر تشدد کیا گیا اس سے انسانی حقوق پامال ہوئے ہیں لاہور واقعہ میں دس سے 12لوگ شہید ہوئے تھے آج کے واقعہ میں بھی کافی لوگ زخمی ہوئے ہیں یہ کونسا اخلاقی رویہ ہے کہ خود عمران خان 126 دن کا دھرنا ڈی چوک پر دیتے رہے ہیں اب اگر تحریک لبیک کے لوگ مظاہرہ کررہے ہیں تو ان پر تشدد کیا جارہا ہے یہ آخر کس بنیاد پر ہے اتنا بڑا فرق آج کیوں یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب نواز شریف  کے خلاف ان کا مظاہرہ تھا تو وہ ٹھیک تھا اب جبکہ عمران خان کے خلاف ہے تو غلط ہے اور قانون کو ہاتھ میں لینے والی بات ہے۔

ہم حکومت کے ان ظالمانہ ہتھکنڈوں  کی مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کو احتجاج کا حق دیا جائے اور معاملہ کو قانون کے دائرے میں شائستی کے ساتھ  حل کیا جائے صرف یہ نہیں کہ وہ ایک مذہبی لوگ ہیں مذہبی لوگوں کو آپ نشانہ بنائیں اوردنیا کے سامنے  دکھائیں کہ یہ لوگ انتہا پسند ہیں کوئی انتہا پسند نہیں ان کا ایک مطالبہ  ہے اور اس کے حق میں مظاہرہ کررہے ہیں یہ حق جمہوری ماحول میں ہر پارٹی کو ہوا کرتا ہے۔