سیاست کا محاذ گرم ہے لیکن اس وقت چولستان سے آنے والی پانی پانی پکارتی ہوئی آوازوں پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں قلت آب اور قحط سالی کی بدولت سینکڑوں مویشی ہلاک ہو چکے ہیں ۔چولستان کے لوگوں کے لیے ان کی ایک بکری کا مرجانا بھی کسی سانحے سے کم نہیں ہوتا کیونکہ یہ ڈھور ڈنگر ان کے لیے زندگی کی علامت ہیں وہ انہی کے بل بوتے پر زندگی کا سامان کرتے ہیں۔یہ ڈھورڈنگر صحرا میں رہنے والوں کے لئے ان کے گھر کے مکینوں کی طرح ہوتے ہیں ان کے مرنے سے ان کا کچھ حصہ ساتھ ہی مر جاتا ہے تو بس یوں سمجھئے کہ اب دو سو سے زیادہ بھیڑ بکریاں مرنے سے خواجہ فرید کی روہی میں سوگ کا سماں ہے ۔کاش کہ اس سوگ کی کچھ سلگن ہمارے ملک کے اہل اختیار اہل اقتدار کے دلوں میں اداسی کی ایک پھانس کی طرح اتر جائے۔ صحرا میں پسماندگی کے ماحول میں زندگی گزارنے والوں کے لیے اس ملک کے ایوانوں میں کبھی دردمندی سے نہیں سوچا گیا۔ان مسائل پر کبھی کوئی قومی کانفرنس نہیں ہوئی ،کبھی کسی مکالمے کا آغاز نہیں ہوا۔ پاکستان میں موجود صحراؤں کی قسمت بدلنے کی پر خلوص کوششیں کبھی نہیں کی گئیں۔ کوئی پالیسی اگر بنی بھی تو وہ سیاست کی یا پھر ہماری اس ازلی ہڈ حرامی کی نذر ہو گئی جو ایک آسیب بن کر سرکاری اداروں میں کام کرنے والے افسران اور ان کے رویوں میں پائی جاتی ہے۔ ہمارے قومی مسائل کی نوعیت ہی دوسری رہی ہے۔ایک المیہ یہ بھی ہے کہ منتخب حکومتوں کو یہاں ہمیشہ اپنے سروائیول کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ انتخابات ہوتے ہیں حکومت بنتی ہے تو ساتھ ہی الزامات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور تمام عرصہ حکومتیں اپنے سروائیول کی جنگ میں گزار دیتی ہیں۔اس دوران سیاست کا تماشا لگا رہتا ہے۔بے یقینی کی گرد اڑتی رہتی اور اسی گرد سے سنسنی خیز خبریں جنم لیتی رہتی ہے اور انہیں سنسنی خیز خبروں پر کالم اور تجزیے لکھے جاتے ہیں۔ ٹی وی چینل چوبیس گھنٹے اسی سنسنی خیزی سے اپنے پروگرام کی ریٹنگ کشید کرتے ہیں ہیں بس یہ ایک سرکس ہے جو پاکستان میں لگی ہوئی ہے۔ایسے ماحول میں سنجیدہ اور بنیادی ایشوز ہر بات نہیں ہوتی کیونکہ سنجیدہ اشوز ریٹنگ نہیں لا تے۔ میں مانتی ہوں کہ اس جرم میں میں بھی برابر کی شریک ہوں۔لیکن میں تو صرف ایک لکھاری ہوں اور اسی طرح تجزیہ کرنے والے اور چینل پر بیٹھے پروگرام کرنے والے لوگوں کا کام تو صرف بولنا ہے اور تجزیہ کرنا ہے اصل کام ان لوگوں کا تھا جن کے ذمہ اس ملک کی پالیسیاں بنانا تھا بلوچستان سے لے کر جنوبی پنجاب کے صحراؤں تک پاکستان کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لیے روڈ مپپ تیار کرنا تھا لیکن افسوس کہ یہ خانہ پاکستان میں ہمیں خالی دکھائی دیتا ہے ۔ پاکستان اپنے صحراوں تھل تھر اور چولستان پر اس سطح کا کام نہیں کر سکا جو ہمیں دنیا کے کئی دوسرے ملکوں میں نظر آتا ہے جنہوں نے اپنے صحراؤں کو سرسبز جنگلوں میں تبدیل کیا۔اس حوالے سے چین کا کام بہت قابل قدر ہے چین کے کل محل وقوع کا 27 فیصد صحراؤں پر مشتمل ہے۔ 58فیصد پہاڑی علاقہ ہے چین میں کل بارہ فیصد حصہ قابل کاشت ہے لیکن اس کے باوجود چین نے اپنے صحرائی علاقے کو قابل کاشت بنایا اور وہاں جدید سائنسی طریقوں سے پھل اور سبزیاں اگانے کے کامیاب تجربات کیے ۔چین اپنے 12فیصد قابل کاشت رقبے کے باوجود اس وقت نہ صرف پھلوں سبزیوں اور اناج کی کاشت میں خود کفیل ہے بلکہ دوسرے ملکوں کو بھی ایکسپورٹ کرتا ہے۔چین میں ڈیزرٹ انڈسٹری کے نام سے باقاعدہ ایک شعبہ قائم کیا گیا ہے۔مسلسل تحقیقی تجربات کے نتیجے میں چائنا کے لق ودق صحرا میں اب soil less کاشت کاری بھی ہورہی ہے۔ چین میں کل زمین کا بڑا حصہ چونکہ صحرا پر مشتمل ہے اس کا احساس چین کے پالیسی سازوں کو بہت پہلے ہوگیا تھا اسی مقصد کے لیے آج سے چالیس برس پہلے چین میں درخت لگانے کی مہم کاآغاز ہوا تھا۔ اس مہم کے تحت 17ملین افراد نے بطور رضا کار خود کو رجسٹر کروایا اس منصوبے کے تحت اب تک 78 بلین درخت لگا کر تپتے صحراؤں کو سر سبز جنگل میں بدلا جا چکا ہے۔فارسٹ پروگرام چائنا 2050 اس وقت چائنہ کا ایک شادار پراجیکٹ ہے جس کے تحت 87 ملین ایکڑ خشک بنجر صحرائی زمین کو سر سبز جنگل میں بدلا گیا ہے۔ یہاں ہمارا دھیان بلین ٹری۔منصوبے کی طرف جاتا ہے بلاشبہ ایک اچھا منصوبہ تھا اگر اس پر دیانتداری سے کام کیا جاتا۔ اگر اس پراجیکٹ پر خلوص دل سے کام ہوتا تو اس کا سب سے بڑا فائدہ پاکستان کے صحراؤں کو ہونا تھا۔صحراؤں میں زندگی کا انحصار بارشوں پر ہے بارشوں کے پانی کو عیاں کے باسی ٹوبھوں کی شکل۔میں محفوظ کرتے ہیں۔چولستانی بھی ٹوبہ بناتے اور اس میں آسمان سے برستا پانی جمع کرتے ہیں، انہی سے انسان اور مویشی پانی پیتے ہیں۔چولستان میں اس برس اتنی خشک سالی ہوئی کہ بارش کی پانی سے بھرے ہوئے ٹوبے بھی خشک ہوگئے۔وقت کی ضرورت یہ ہے کہ صحرا میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے جدید طریقے استعمال ہونے چاہیے۔سرکار کی مدد کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا۔چولستان میں ہونے والی حالیہ خشک سالی اور اس کے نتیجے میں سینکڑوں مویشیوں کے مرنے کا دلسوز سانحہ ایک رات میں نہیں ہوا ۔حالات اس نہج پر پہنچنے سے پہلے چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ذمہ داران کی نگاہ میں کیوں نہ آسکے ۔دنیا نے اپنے صحراؤں کو کس طرح سرسبز جنگلوں میں بدلا وہاں کی بنجر زمین کو قابل کاشت بنایا مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ہم بھی اس قابل ہو سکیں گے ؟ ٭٭٭٭
چولستان میں پانی ختم ہونے سے جانوروں کی ہلاکتوں کا معاملہ کیا ہے
روہی کے نام سے بھی پہچانے جانے والے جنوبی پنجاب کے صحرائے چولستان کو علاقے کا سب سے بڑا صحرا مانا جاتا ہے، گرمی میں اضافے کے بعد یہاں ٹوبہ کہے جانے والے تالاب خشک ہونا اور نقل مکانی مقامی آبادی کا ایک معمول سمجھا جاتا ہے۔
رواں برس موسم گرما نے شدت اختیار کی تو محکمہ موسمیات کے مطابق درجہ حرارت معمول سے نو درجے زائد رہا۔ بڑھی ہوئی حدت نے جہاں دیگر مقامات کو متاثر کیا وہیں چولستان سے یہ خبریں سامنے آئیں کہ پانی ختم ہونے سے ہونے والی خشک سالی سے درجنوں جانور ہلاک ہو گئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر متعدد صارفین نے چولستان کے علاقے میں خشک سالی کا ذکر کرتے ہوئے مقامی افراد کو پانی پہنچانے کے لیے جہاں اپنی کوششوں کا ذکر کیا وہیں حکام سے بھی علاقے میں فوری طور پر پانی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس دوران میڈیا اور سوشل میڈیا میں یہ خبریں بھی رپورٹ ہوئیں کہ خشک سالی کی وجہ سے درجنوں مویشی ہلاک ہو گئے ہیں۔
Load/Hide Comments