آئیں امن کا بیانیہ بنائیں…تحریر،حاکم نصیرانی


ہمارے پڑوسی یا ترقی یافتہ ممالک کے چیف آف آرمی اسٹاف یا خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کے نام شاید ئی کسی عام آدمی کو معلوم ہوں، لیکن اس کے برعکس ہمارے ملک کے عام آدمی سے لیکر بچوں تک کو ہمارے آرمڈ فرسز کے سربراہان کے نام یاد ہیں۔ ہمارے صدور کے نام شاید کسی کو یاد ہوں لیکن خفیہ اداروں کے سربراہ کے نام اور کام یاد کرنے میں ہم کسی سے کم نہیں۔ اسے ہماری محبت، عقلمندی کہا جائے یا یاد کرایا ہوا سبق؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔ اس کے کیا اسباب ہیں وہ ہر کسی کی اپنی سوچ ہے۔

لیکن میں سمجھتا ہوں ہمارے سیاسی لوگ اپنی کامیابی و ناکامی ان کے کھاتے ڈال کر ہمیں طوطے کی طرح سبق یاد دلاتے ہیں۔ کچھ اس طرح کا بیانیہ بنایا جاتا ہے کہ ہم تردیدیں تک ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ آج کل نیوٹرل جانور ہوتا ہے ایک تقرری نے حکومت ختم کرا دی، امریکا کی سازش، رات کو عدالتیں کیوں کھلیں، کا بیانیہ زور شور سے جاری ہے۔ ایسے حالات کو دیکھتے ہوئے آء ایس پی آر کی جانب سے تردید بھی آگئی ہے کہ ہمیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ بیانیے کی بازگشت تو اب عدالتوں میں بھی سنائی دے رہی ہے۔
اس وقت ملکی حالات کو دیکھ کر ہر ذی شعور انسان کو افسوس ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو ہم اپنے آپ کو تہذیب و تمدن کا امین سمجھتے ہیں۔ ہمارا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انسانی ترقی کا دریچہ ہمارے ہاں سے کھلتا ہے۔ اس کے برعکس اگر اخلاقی پستگی کی بات کی جائے تو پھر بھی کوئی ہمارا ثانی نہیں۔ عدم برداشت میں تو ہم سب سے آگے ہیں۔ موجودہ سیاسی حالات کو دیکھیں تو شرم کے مارے اپنے آپ سے آنکھ نہیں ملا سکتے۔ سیاست کا المیہ یہ ہے کہ ہر شاخ پر کافی الو بیٹھے نظر آتے ہیں۔
سیاست میں بیانیہ بنانا ہر تنظیم کا بنیادی حق ہے۔ جب سیٹلائیٹ کی دنیا اپنی تخلیق کے ابتدائی مراحل سے گذر رہی تھی تب بھی سیاسی لوگ اپنا بیانیہ گھر گھر پہنچانے کی جستجو میں مصروف تھے۔ مختلف تنظیمیں کی جانب سے کارکنان کو باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی۔تنظیم کا نصب الآئین سمجھایا جاتا تھا۔

تربیت یافتہ کارکن ہاتھوں میں رنگ برش اٹھا کر رات کی تاریکی میں شہر کے گلی محلوں میں نکل پڑتے تھے۔ صبح دیواروں پر تحریریں اور نعرے درج دیکھنے کو ملتے تھے۔ کبھی کبھار تو چاکنگ پر تصادم بھی ہو جاتا تھا۔اک دور ایسا بھی آیا کہ بیانیے کی مضبوطی کیلئے پریس کا سہارا لیا گیا۔ ہینڈ بلز پنفلیٹ اور بینرز کا بے انتہا استعمال ہوا اس کے ساتھ پرنٹ میڈیا میں تنظیموں کی طرف سے اشتہارات کی مد میں سرمایہ کاری ہونے لگی۔

اس لیے آج بھی کچھ اخبارات کو مختلف سیاسی پارٹیوں کا حمایتی سمجھا جاتا ہے اور ان کے اداریوں پر ان پارٹیوں کے بیانیے کی بات کی جاتی رہی ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں الیکٹرانک میڈیا نے بڑی ترقی کی اس لیے پرانے مشہور اخبارات کے مالکان اور کچھ نئے کاروباری لوگوں نے اپنا سرمایہ اس شعبے میں لگایا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے ملک میں نجی چینلز کا جال بچھ گیا۔ نجی چیلنز پر بھی بیانیہ بکنے کیلئے رکھ دیا گیا۔

سینکڈز سے لیکر گھنٹوں تک بیانیے کی بولیاں لگنے لگیں. پروگرامز سے لیکر میزبان تک ایسا ماحول بنایا جاتا رہا کہ کسی نہ کسی کے بیانیے کو تقویت ملتی رہی۔ 2013 کی الیکشن کے بعد میڈیا کو مخصوص انداز سے استعمال کرنے کیلئے ایک بڑی منظم انداز سے مہم جوئی ہونے لگی۔ ان چینلز پر گھنٹوں تک سب چیزیں ایک طرف رکھ کر چور ڈاکو لٹیرے والا بیانیہ چلایا جانے لگا جس سے عام لوگوں کی سوچ متاثر ہونے لگی نتیجہ یہ نکلا کہ مبینہ چور لٹیرے ایک سائیڈ پر ہو گئے خان صاحب ایک مسیحہ کے روپ میں نمودار ہوئے اور اک نئی امنگ جاگنے لگی۔

ساڑھے تین سال تک چور لٹیرے والا بیانیہ تو بکتا رہا لیکن نتیجہ کچھ حاصل نہ ہو سکا جس سے عام عوام کو فائدہ ملا ہو۔ آہستہ آہستہ مخصوص لوگوں کے علاوہ عام لوگوں نے چور لٹیرے والے بیانیہ کو رد کرنا شروع کیا۔ بیانیہ بنانا خان صاحب کی بائیں انگلی کا کھیل ہے اس لیئے خان صاحب نے اپنے پونے چار سالا کارکردگی کو اک نئے بیانیے کے نیچے دبانے کی کوشش کی۔ عدم اعتماد کے بعد اک نیا بیانیہ سازش کے نام سے نمودار کیا گیا ۔الیکٹرک میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر سازش اور مداخلت والے بیانیے کے چرچے ہونے لگے۔ وہی پرانے کھلاڑی اپنی روزی روٹی پر قومی مفادات کو چھوڑنے لگے۔

جس کا اثر سیدھا سیدھا سماج کے سوچنے سمجھنے پر ہونے لگا۔ جب سے سازش کا بیانیہ شروع ہوا تب سے اس طرح محسوس ہو رہا کہ ایک مخصوص سوچ کے علاوہ باقی سب غدار اور ملک دشمن ہیں۔ اس وقت ہمارے سماج میں سیاسی طور پر نفرتیں عروج تک پہنچ گئی ہیں۔ اب بات سوشل میڈیا کی گالم گلوچ سے نکل کر ہاتھا پائی تک آ گئی ہے۔ اب یہ تنگ نظر سوچ اسیمبلی ہال سے نکل کر مقامات مقدسہ، ہوٹلز اور بازاروں تک پہنچ گئی ہے۔

جس کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔ کوئی بھی اس نفرت کی آگ کو کم کرنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہا۔ شیخ رشید اور عمران خان اپنی تقریروں میں خونی تصادم کی باتیں تک کر گئے ہیں۔ حالات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب چاہتے ہیں ایسی کوئی انہونی ہو جس پر سیاست کی جائے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو جب بھی کوئی نقصان ہوا اس کا خمیازہ ایک عام آدمی نے بھگتا ہے۔ اگر کوئی زخمی ہوا بھی تو وہ عام کارکن تھا اگر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا تو وہ بھی عام کارکن ئی تھا۔

اس کے بدلے میں اقتدار و طاقت کے مزے لیڈر لیتے رہے ہیں۔ ہمارے لیڈران اپنے جلسے جلوسوں میں اپنے خاندان کو دور رکھتے ہیں اگر گھر کا کوئی فرد شامل ہو بھی تو اس کی حفاظت کیلئے پھر بھی عام کارکن ہی قربانی کا بکرہ بنتا ہے۔
لہٰذا اب وہ وقت آ گیا ہے جس میں ہمیں سوچنا ہوگا ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہمارے رہنما ہمارا استعمال کس طرح کر رہے ہیں؟ میں اپنے پڑھنے والوں کو دعوت فکر دیتا ہوں خدارا سوچیں ہمارے سیاسی رہنما تو ایک دوسرے کے ساتھ رشتوں اور دوستیوں کی ڈوری میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے صرف الفاظ کی حد جلسوں یا کسی ٹی وی ٹاک شوز میں اختلاف کرتے ہیں حقیقی زندگی میں وہ ایک دوسرے کے اعزاز میں پرتکلف دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔

اس لیئے پوری قوم کو دعوت دے رہا ہوں کہ نفرت سے پاک ایک نیا بیانیہ بنائیں جہاں اختلاف راء پر گالم گلوچ نہ ہو جہاں اظہار آزادی پر کسی کو قتل نہ کیا جائے۔ جہاں آئین شکنی کا تصور بھی گناہ تسلیم کیا جائے جہاں امیر غریب کا فرق ختم ہو۔ جہاں ایثار سے سرشار سماج بنانے کیلئے ہر فرد کوششاں ہو۔ جہاں قوم کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جائے۔ جس میں سچ کا بول بالا ہو۔ آئیں ایسا کو محبت و خلوص والا بیانیہ بنائیں جس سے ملک و ملکی ادارے بے توقیر نہ ہوں