رنگ برنگی عینکیں اور جہانِ درویش… تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


اس دنیا کے حوالے سے موجود ہر علم حاصل کرنا بلکہ اسے جاننا فرد کے بس کی بات نہیں۔ دنیا کا مشاہدہ ہر فرد اپنے مخصوص ویژن، ادراک، دانش اور نقطہ نظر کے حوالے سے کرتا ہے اور یہ کسی ایک پہلو کے بارے میں ہوتا ہے، جس کی جہاں تک رسائی ہے اس کی نظر وہاں تک پہنچتی ہے۔کچھ اپنے سامنے پڑی چیزوں کا ادراک کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور کچھ آنکھ بند کرکے بھی وہ منظر دیکھ لیتے ہیں جو ہماری ظاہری حدود میں نہیں سما سکتا۔یہ ساری صلاحیتیں قدرت کی عطا کی ہوئی ہیں تاہم کچھ صلاحیتوں کو متحرک کرنے میں انسان کا اندرونی نظام، دلچسپی اور ماحول اثر انداز ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کائنات کا سارا نظام جو ہمارے سامنے ایک کینوس پر رکھی تصویر کی طرح موجود ہے ، ہم سب اس کی توجیح اپنے علم اور حدود کے مطابق کرتے ہیں۔ہر فرد کی صلاحیت اور رائے مختلف ہوتی ہے کیوں کہ اس کا دماغی اور روحانی نظام مختلف ہوتا ہے۔ کوئی دنیا کو طبی سائنس کی لیبارٹری میں مقید کر کے اپنے سوالوں کے جواب تلاشتا ہے۔ کوئی عقیدے کی نگاہ سے اس کو پرکھتاہے اور کوئی شاعر کا دل اوڑھ کر دل کے مچلتے احساسات کی آنچ میں سمانے کی جستجو سے آغاز کرتا ہے۔ کوئی عقل اور کوئی وجدان کی راہ اپنا کر دنیا کے الجھے نقشے میں سیدھا رستہ ڈھونڈنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے

انسان کا تمام سفر خود اور کائنات کو سمجھنے اور اس نقطے کو تلاشنے میں گزر جاتا ہے جو ہم آہنگی کی ضمانت ہے۔اگر اس تمام تگ و دو کے نتیجے میں سامنے آنے والی تحقیق پر غور کیا جائے تو کھلتا ہے کہ انسان نے جس رنگ کی عینک پہن رکھی ہو اسے ویسا ہی دکھائی دیتا ہے،جس نے سائنس اور ظاہری علوم کی عینک پہن رکھی ہے اسے آنکھوں دیکھے تجربے اور مشاہدے پر یقین ہے وہ نظر سے اوجھل جہانوں پر کم یقین کرتا ہے اور جس نے وجدان کی عینک پہن رکھی ہے اس کا احاطہ اور دائرہ کار وسیع ہوتاہے وہ ظاہری کے ساتھ باطنی آنکھ کا سِرا جوڑ کر دنیا کو ایک مختلف زاویے سے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ عینکیں دراصل وہ مکتبہ فکر ہیں جو کسی انسان کی مخصوص سوچ،وابستگی اور نقطہ نظر کو ظاہر کرتی ہیں،یوں اس قصے کو مختصر کریں تو انسان کی نظریاتی اساس کے دو مکتبہ فکر سامنے آتے ہیں۔

مادی اور روحانی۔ مادیت کا تعلق،سائنس، عقل اور دنیاوی ترقی کے علاوہ آرام و آسائش، نفع نقصان اور طاقت و حکومت کے حصول سے ہے، یہاں اکثر طاقت کا جذبہ جنون کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور انسان اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ماردھاڑ اور خطرناک جنگوں کی راہ اپناتا ہے، ہر شے پر قبضے کی خواہش انسان کو بے رحم بنا دیتی ہے، وہ دوسروں کے وسائل سے زندگیوں تک سے کھیلنے کو جائز سمجھنے لگتا ہے اور معاشرتی ڈھانچہ اس زوال کی جانب چل پڑتا ہے جو اس وقت دنیا کے منظرنامے پر موجود ہے، جبکہ روحانی سطح پر آگے بڑھنے والے کا تعلق روح،دل، احساس، انسانی قدروں اور انسانی فلاح سے ہے۔یہ درجہ انسان کو درویشی کی عینک عطا کرتا ہے جو سراسر محبت کے رنگ اجاگر کرتی ہے۔ہر طرح کا ادب و فن اسی درجے پر فائز لوگوں کی میراث بنتا ہے۔تصوف اور عشق کی شمع بھی اسی در پر جلوہ افروز ہوتی ہے۔

سطحی سوچ کوئی بڑا ادب تخلیق نہیں کر سکتی، حقیقی ادیب ہمیشہ درویشانہ مزاج کا حامل ہوتا ہے۔یہی درویشی اسے وسعت خیال عطا کرتی ہے اور وہ عام واقعات میں سے خاص نکتے سامنے لا کر زندگی کی راہیں روشن کرتاہے۔کئی مہینوں سے میری لائبریری کی میز پر ایک کتاب رکھی تھی جس کے کچھ صفحات میں ایک بار پڑھ چکی تھی مگر کتاب میں درج کچھ واقعات نے میری توجہ کو تفصیلی مطالعے کی دعوت دی جسے کئی مہینوں بعد قبولیت حاصل ہوئی۔ اس کتاب کا نام جہانِ درویش ہے۔کینیڈا میں مقیم عمران نذیر چوہدری کی یہ تصنیف اکیس افسانوں پر مشتمل ہے۔افسانے کی صنف میں اسے ایک نیا اور دلنشین اضافہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں سچی کہانی کا سا بہاو، افسانے کا سا سحر انگیز ماحول اور داستان گوئی جیسی اثر انگیزی ہے۔ مصنف نے اپنے ارد گرد پھیلے منظرنامے سے کچھ واقعات کو افسانوں کے رنگ میں ڈھال کر عمدہ کاوش کی ہے۔

وہیں اس کے دل کے قریب موجود مقدس اور محبوب رشتوں کا سلسلہ بھی موجود ہے جو اب اس کی دنیا میں موجود نہیں مگر ان کا احساس اسے ہر لمحہ ہے بچپن، لڑکپن اور جوانی کے دور میں ان کی رہنمائی، محبت اور شفقت کو سوچتا ہے تو ان کی عظمت اور محبت کا احساس توانا تر ہو جاتا ہے۔وہ خود والد کی مسند پر بیٹھ کر اپنے والدین کی عظمتوں کا اعتراف کرتا ہے تو شخصیت کی تفہیم کے نئے در کھلتے چلے جاتے ہیں اور ہمیں ان افسانوں میں خاکہ نگاری کا لطف محسوس ہونے لگتا ہے۔وہیں آج کے دور میں مدھم پڑتی اقدار کے اس ماحول کو دیکھ کر خود احتسابی کی تحریک ابھرتی ہے۔موقع ملے تو جہانِ درویش کے طلسم کدے کی ضرورسیر کیجئے۔موتیوں جیسے لفظ آپ کو مالا مال کرنے کے منتظر ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ