سابق وزیراعظم عمران خان جاتے جاتے ملک کو خوفناک معاشی ، سماجی اور سیاسی بحرانوں میں جھونک گئے۔کرکٹ کھلاڑی کو جب سیاسی اکھاڑے میں اتارا گیا تو ایک مرتبہ ایسا موقع بھی آیا جب مقتدر قوتوں نے عمران خان کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے اندیشہ ظاہر کیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ خود کہیں اُن کے لیے ایک مسئلہ نہ بن جائے۔یہی وجہ ہے کہ2013ء کے انتخابات میں اُن کی سلیکشن کا عمل روک دیا گیا۔ر اقم لحروف کو زمان پارک لاہورکی وہ ملاقات یاد ہے جب سراج الحق(موجودہ امیر جماعت اسلامی پاکستان)خیبر پختونخواکی مخلوط حکومت بنانے کے لئے عمران خان سے ملاقات کررہے تھے،جس میں جہانگیرترین،پرویز خٹک اور نعیم الحق بھی موجود تھے،اس ملاقات میں خود عمران خان نے انکشاف کیا کہ مجھے عسکریہ نے ہرایا ہے اور میں بہت جلد اسلام آبادپر حملہ کروں گا اور نئی حکومت کوچلنے نہیں دوں گا۔مگر بعدازاں مقتدر قوتوں کی مکمل آشیرباد سے 2014ءمیں دھرنا دیا اور پھر مقتدر مربین اور میڈیا کی سرتوڑ کوششوں سے وہ 2018ء میں پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو گئےاور 44 ماہ اقتدر میں رہنے کے بعد 10 اپریل 2022 کو بنی گالا سدھار گئے مگر جاتے جاتے آئین اورریاست کی چُولیں بھی ہلا گئے۔
سیاسی منظرنامہ میں ’’تبدیلی‘‘ کوایک طرف رکھتے ہوئے نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی مخلوط حکومت کو جن مسائل اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا اس میں سب سے اہم مسئلہ انتخابی اصلاحات اور نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔ آصف علی زرداری نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے پہلے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کو بتایا تھا کہ شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت عام انتخابات سے پہلے انتخابی اصلاحات کرے گی۔جماعت اسلامی نےآصف علی زرداری اور شہباز شریف پر واضح کردیا تھا کہ عمران خان کو سیاسی شہید بنانے کے بجائے فوری انتخابات کروائے جائیں تاکہ تازہ عوامی مینڈیٹ کے بعد نئی قومی اسمبلی پورے شرح صدر کے ساتھ ملک کو معاشی اورسیاسی بحرانوں سے نکالے۔بہرحال اب زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہاؤس آف شریف کا ایک چشم وچراغ ایوان وزیراعظم پہنچ گیا ہے۔جناب شہباز شریف کے لیے کرنے کے بہت سے کام ہیں۔ مگرہم سب سے پہلےاُن کی خدمت میں یہ عرض کریں گے کہ احتسابی نظام اور قومی احتساب بیورو کا خاتمہ اُن کی بہت بڑی غلطی ہوگی۔جس سے ایک طرف یہ تاثر راسخ ہو گا کہ نئی حکومت کا مقصد اپنے مقدمات ختم کروانا ہے تو دوسری طرف بدعنوانی اور بدعنوانوں کو کھلی چھٹی مل جائی گی کہ وہ قومی خزانے کو لوٹتے رہیں۔
ہماری نگاہ میں شہباز حکومت کا سب سے بڑا چیلنج اورمسئلہ ’’ سیاسی تقسیم/پولرائزیشن ‘‘ کا خاتمہ ہے جو عمران خان کے نئے بیانیے سے وجود میں آیا ہے۔ سیاسی اور معاشی نظریات میں واضح فرق کے باوجود نئی مخلوط حکومت کو سب سے پہلے قومی بیانیہ کی تشکیلِ نوکے لئے ایک وسیع البنیادمکالمے (ڈائیلاگ) کی ضرورت ہے۔اس مکالمے میں تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو شریک کرنا چاہیے۔سیاسی تقسیم (پولرائزیشن )کے خاتمے میں دیر نہیں ہونا چاہیے۔
شہباز حکومت کادوسرا بڑا چیلنج فوری انتخابات کے لیے موافق حالات سازگار بنانا ہے۔ نئے انتخابات کا انعقادتمام جماعتوں کا متفقہ مطالبہ ہے۔اگر اس میں تاخیر کی گئی تو سب سے زیادہ نقصان پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کا ہوگا۔ اسی طرح حکومت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مکمل مالی اور انتظامی خودمختاری دے تاکہ وہ آزادانہ،منصافہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت سیاسی جماعتوں کے اشتراک اور مشاورت سے انتخابی اصلاحات کا ایک جامع منصوبہ تیار کرے اور ایک ایسا انتظام کرے کہ انتخابات میں ریاستی اداروں کی مداخلت بند ہو جائے۔
شہباز حکومت کا تیسرا بڑا چیلنج بکھری معیشت کی شیرازہ بندی ہے۔شہباز شریف کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ان کا کاروباری دائرہ اثر اندرون اور بیرون ملک پھیلا ہوا ہے۔ افراطِ زر اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم اور زرِمبادلہ میں اضافہ سیاسی بحران کو کم کرنے میں اُسی وقت مدد دے گاجب حکومتی اقدامات پائیدار اور موثر ہوں۔شہباز حکومت کو درآمدات اوربرآمدات کے درمیان ادائیگیوں کے توازن کو بہتربنانے کے لئےغیر ضروری درآمدات کو بھی روکنا ہوگا۔ وزیراعظم کا ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کا اعلان اور سستا آٹا مہیا کرنے کا وعدہ خوش آئندہ ہے مگر اصل مسئلہ مہنگائی اوراشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو قابو میں لانا ہےجو سر چڑھ کر بول رہاہے۔
شہباز حکومت کا چوتھابڑا چیلنج بین الاقوامی قرضوں سے نجات اور آئی ایم ،ایف ورلڈ بینک اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کےچُنگل سے پاکستان کو آزاد کرانا ہے۔ نئی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ تمام معاہدات پر نظرثانی کرے،سٹیٹ بنک آف پاکستان کو آئی ایم ایف کی غلامی سے آزاد کرائے اور سُودی معیشت کا مکمل خاتمہ کرے جوعوام کا خون پسینے سے کمایا ہواسرمایہ چُوس رہی ہے۔
شہبا زحکومت کا پانچواں بڑاچیلنج روزگار کےمواقع پیدا کرنا ہے ۔ سرکاری ملازمتوں پر پابندی ختم کر کے خالی اسامیوں کو پُر کرنا حکومت کی ترجیح ہونا چاہیے۔ اسی طرح بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینا، پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کرنابہت ضروری ہے۔
شہباز حکومت کا چھٹا بڑا چیلنج بین الاقوامی تعلقات کی رفوگیری ہے۔ اُنہیں غیر جانبدرانہ اور قومی وقار پر مبنی ایسی آزادخارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو کرنا ہوگی جس میں پہلی ترجیح اسلامی ممالک ، دوسری ترجیح چین ، ایران ، افغانستان اور ترکی اورتیسری ترجیح برابری کی سطح پر امریکہ ،روس اور یورپین یونین کے ساتھ تجارتی و سفارتی اور دوستانہ تعلقات کوملنا چاہیے۔ہندوستان کے ساتھ تجارتی اور دو طرفہ تعلقات کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل اور کشمیریوں کے حق خودارایت سے مشروط کرنا چاہیے۔
شہباز شریف حکومت کا ساتواں بڑا چیلنج سابق حکومتوں میں اسلامی معاشرہ ، دینی مدارس اورتعلیمی نظام کوپہنچنے والےنقصان کا ازالہ ہے۔خواتین، غیر مسلم آبادی،مزدوروں ،کسانوں اور نوکر پیشہ طبقہ کے لئے آسانیاں پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔
شہباز شریف کا وصف یہ ہے کہ وہ اچھے منتظم ہیں اس لئےاپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے اُنہیں ہر سُو محنت کرنا ہو گی اور ملک کومعاشی اور سیاسی عدم استحکام سے باہر نکالنا ہو گا۔