ہماری حکومتیں اور قومی زبان…افشین شہریار، صدر تحریک نفاذ اردو پاکستان


حکومتیں آتی اور جاتی رہتی ہیں مگر آج تک کسی حکومت نے قومی زبان کےنفاذ کی طرف توجہ نہیں دی حالانکہ حکومت وقت کے لیۓ یک جنبش قلم کی بات ہے ۔پچھلی حکومت سےبھی یہ توقع تھی مگر اچانک بحران پیدا ہوا اور اس کے نتیجے میں سب کچھ الٹ گیا۔بساط لپیٹ دی گٸی سب کی توجہ اس بحران کی طرف تھی ہر طرف ایک کشمکش کی صورتحال تھی ۔مزے کی بات ہے 22 کروڑ عوام کو جس زبان میں پیغام دیا جا رہا تھا وہ قومی زبان ہی تھی کیونکہ غیر ملکی زبان تو یہ حق ادا نہیں کر سکتی آخر قوم اپنی قومی زبان میں ہی ساری بات سمجھ سکتی ہے ۔آخر یک جنبش قلم سب بدل گیا اور دیکھتے دیکھتے نٸے وزیر اعظم نے ذمہ داری سنبھال لی اور تمام معاملات قومی زبان میں سمجھے اور سمجھاٸے گٸے مگر قومی زبان کے نفاذ کی طرف سے پھر توجہ ہٹ گٸی خیر وہ تو پہلے ہی توجہ نہیں تھی ۔
بہرحال سب اپنے اپنے لیڈر سے وفاداری کا اظہار کرتے رہے اور اس سلسلے میں نچلی سطح کی زبان سوشل میڈیا پر نظر آٸی ۔سب اپنی اپنی پارٹی کے بجاٸے صرف رہنماٶں کے بارے میں اچھی بری راٸے دیتے نظر آٸے ۔ایسی ہی صورتحال اس سے پہلی حکومت کے خاتمے کے وقت بھی تھی۔ایک جیسے معاملات ہرمرتبہ دیکھنے کو ملتے ہیں مگر کوٸی قومی زبان کے نفاذ کے بارے کوٸی حکم صادر نہیں کرتا اور اس طرح قومی نقصان بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

یہأں پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدالت کے حکم پر ہی حکمومت تبدیل ہوٸی کیونکہ عدالت کی سربلندی پر ہی قومی وقار کا دارومدار ہوتا ہے تو آخر سپریم کورٹ نے 2015 میں جو قومی نفاذ کا حکم دیا تھا اس پر عمل کیوں نہ کیا گیا اور اس دوران میں آنے والی حکومتوں نے اس کو نظر انداز کیوں کیا۔کیا یہ توہین عدالت نہیں؟ اور اس سلسلے میں کیا حکومتیں مجرم نہیں؟
عدالت عالیہ سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں از خود نوٹس لے اور قومی وقار مجروح ہونے سے بچایا جاٸے