وزیراعظم عمران خان کے’’سرپرائز‘‘ نےملک کو سنگین آئینی بحران کا شکار کردیا ہے۔ جس قومی اسمبلی نے اُنہیں لیڈر آف دی ہاؤس چنا تھا اُس کو آناً فاناً تحلیل کر دیا اور اُس کے لئےڈپٹی سپیکر کی اُس رُولنگ کو جواز بنایا گیا جس کے تحت مبینہ بیرونی سازش کو تحریک عدم اعتماد کی وجہ قرار دیاگیا۔حکومتی اقدامات کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ نے فوری طور پر از خود نوٹس لے کر عدالتی کاروائی شروع کردی ہے۔
بادی النظرمیں سپریم کورٹ سے دو قسم کے فیصلوں کی توقع ہے۔ایک یہ کہ ڈپٹی سپیکر کی رُولنگ وزیراعظم اور صدر مملکت کے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دےدےیا پھرپی ٹی آئی حکومت کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئےعام انتخابات کے انعقاد کا حکم صادر کردے۔
ثانی الذکر فیصلہ کی صورت میں 90 دونوں میں عام انتخابات میں حصہ لینے پر تمام سیاسی جماعتیں مجبور تو ہو جائیں گی مگر سیاسی تقسیم اور کشیدگی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔سب سے بڑا تنازعہ عبوری حکومت کی تشکیل پر ہوگا۔قومی اسمبلی کی تحلیل کےبعد وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اپنی اپنی قانونی حیثیت کھو بیٹھے ہیں اس لئے اپوزیشن وزیراعظم کا اتفاق نہ ہو سکے گا۔ اگر معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں چلاگیا، تب بھی یہ سوال اُٹھے گا کہ تحلیل شدہ قومی اسمبلی کے ارکان کی عدم موجودگی میں پارلیمانی کمیٹی کی کیا حیثیت ہے؟
دوسرا بڑا تنازعہ الیکشن کمیشن کے بقیہ دو ممبران کی تقرری پر ہو گا۔ تحلیل شدہ قومی اسمبلی کا سابق اپوزیشن لیڈر عارضی وزیراعظم الیکشن کمیشن کے ممبران کا تقرر کیسے کر سکتے ہیں؟تیسرا بڑا تنازعہ الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ووٹنگ پر ہوگا۔ اپوزیشن اور الیکشن کمیشن کے تحفظات کی موجودگی میں شاید یہ نہ ہو سکے گا۔چوتھا بڑا تنازعہ سمندر پار پاکستانیوں کی ووٹنگ پر ہو گا جس کے لئے اب تک انتظامات ہو سکے ہیں نہ اپوزیشن جماعتیں اور نہ الیکشن کمیشن اس پر متفق ہوئےہیں۔اس پر بھی پھڈے کا امکان ہے۔
پانچواں بڑا تنازعہ 2017ء کی مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں نہ ہونے پر پیدا ہوگا جس کے لیے الیکشن کمیشن کو تمام مراحل مکمل کرنے میں کم از کم تین ماہ درکار ہوتے ہیں۔ چونکہ اس معاملہ پر انتخابی اُمیدواران اور سیاسی جماعتیں انتہائی حساس ہوتی ہیں اس لئے مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیاں نہ ہونے سےایک اور بحران پیدا ہو جائے گا۔چھٹا بڑا تنازعہ شفاف انتخابات کیلئے انتخابی فہرستوں کی تجدید پر اُٹھے گا۔ 2017ء کی مردم شماری کے بعد تقریباً ایک کروڑ پچاس لاکھ نئے ووٹروں کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اگر انتخابی فہرستوں میں نئے ووٹرز کا اندراج ممکن نہ ہوسکا تو انتخابات کی قانونی و اخلاقی حیثیت کیا ہوگی جبکہ انتخابی قوانین کے مطابق انتخابی فہرستوں کا الیکشن سے 30 دن پہلے مکمل ہونا ضروری ہے۔
ساتواں بڑا تنازعہ پولنگ اسٹیشن کی تعداد میں اضافے کے حوالے سے پیدا ہوگا۔انتخابات 2018ء میں پورے ملک میں ایک لاکھ سے زائد پولنگ اسٹیشن تھے جبکہ نئے انتخابات کے لئے کم از کم ایک ہزار پولنگ اسٹیشنوں مزیدبنانے پڑیں گے۔ محدود وقت میں الیکشن کمیشن کے لئے ممکن نہ ہو گا کہ وہ نئے پولنگ اسٹیشنوں کے قیام کے لیے کما حقہ اقدامات کر سکے۔آٹھواں تنازعہ اُس وقت پیدا ہوگا جب قواعد و ضوابط کے مطابق واٹر مارک بیلٹ پیپر کی چھپائی نہیں ہو سکے گی جس کے لیے ملک کے اندر مطلوبہ کاغذ دستیاب نہیں۔ بیلٹ پیپر کی سیکورٹی کو یقینی بنا نے کے لئے یہ کاغذ درآمد کرنا پڑے گا جس کے لئے وقت درکار ہو گا۔
نواں بڑا تنازعہ اس وقت پیدا ہوگا جب الیکشن ایکٹ کی دفعہ 14 کے مطابق الیکشن کمیشن ایک جامع ایکشن پلان نہیں دے پائے گا جو کہ انتخابات سے 4 ماہ پہلے جاری کرنا لازمی ہے ۔دسواں بڑا تنازعہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے فوری انتخابات کے لیے انتخابی عملہ کی ضروری تربیت اور انتخابی مواد کی بروقت فراہمی نہ ہو نے پر ہو گا جو ایک تقاضا ہے۔
گیارواں بڑا تنازعہ اُس وقت پیدا ہوگا کہ جب آئین کے مطابق بلوچستان ،پنجاب اور اسلام آباد میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات موخر کر دئیے جائیں گے۔( صوبہ بلوچستان میں تو بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان بھی ہوچکا ہے)۔بارہواں بڑا تنازعہ قومی وبین الاقوامی این جی اوز کی جانب سے کھڑا کیا جائے گا کہ انتخابی فہرستوں میں صنفی فرق بہت زیادہ ہے یعنی رائے دہندگان کی فہرستوں میں مرد وخواتین کے درمیان وسیع تفادت ہے جو انتخابی نتائج کوناقص بناتا ہے۔
درج بالا حقائق کی بنیاد پر عمران خان کا فوری انتخابات کرانے کامنصوبہ قابلِ عمل نظرنہیں آتا۔ اس لیے قومی انتخابات کو بامقصد اور معتبر بنانے کے لئے آئینی تقاضےپورا کرنا ضروری ہے۔