بھارتی فوجی افسر کے خلاف  تین کشمیریوں کے قتل پر جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع


 سری نگر:بھارتی فوج کی کورٹ آف انکوائری نے فرضی مقابلے میں تین کشمیری نوجوانوں کے قتل  کے جرم میں کیپٹن بھوپیندر سنگھ اور اس کے ساتھوں  کو مجرم قرار دے دیا گیا ہے ۔

سری نگر میں دفاعی ترجمان  کے مطابق  ان کے خلاف جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کر دی ہے ۔ کورٹ آف انکوائری نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فوجی اہلکار تین بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو جعلی مقابلے میں شہید کرنے میں ملوث تھے۔ راجوری ضلع سے تعلق رکھنے والے تین نوجوانوں امتیاز احمد، ابرار احمد اور محمد ابرار کو ضلع شوپیاں کے علاقے امشی پورہ میں 18 جولائی جولائی 2020 میں جعلی مقابلے میں شہید کیا گیا تھا۔ بھارتی فوج نوجوانوں کے ماورائے عدالت کے بعد انہیں عسکریت پسند قرار دیا تھا اور ان کی تصاویر شوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھیں۔

بھارتی اخبار کے مطابق  کورٹ آف انکوائری میں قرار دیا گیا ہے کہ کیپٹن بھوپیندر اور اس کے ساتھوں  نے قانون آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کے تحت حاصل اختیارات سے تجاوز کیا  تھااور بے گناہ نوجوانوں کو جعلی مقابلے میں شہید کیا۔ ۔کورٹ آف انکوائری کے بعد شواہد کی سمری پیش کی گئی، جو دسمبر 2020 کے آخری ہفتے میں مکمل ہوئی تھی۔ اس کے بعد، فوج نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ “ثبوت کی سمری ریکارڈ کرنے کا عمل مکمل ہو گیا ہے ،  متعلقہ حکام کی طرف سے اس کی جانچ کی جا رہی ہے اور مزید آگے بڑھنے کے لیے قانونی مشیروں سے مشاورت کی جائیگی۔ ۔

حکام نے کہا  تھا کہ کپتان کو AFSPA کے تحت حاصل اختیارات کی خلاف ورزی کرنے اور سپریم کورٹ کی طرف سے منظور شدہ فوج کے  قواعد و ضوابط پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے کورٹ مارشل کی کارروائی کا سامنا ہے۔2020 میںفوج نے ابرار احمد کے والد محمد یوسف کو بھی راجوری سے کورٹ مارشل کی کارروائی کے لیے بلایا تھا۔

انہوں نے کہا میں گزشتہ ایک ہفتے سے یہاں ہوں اور آرمی حکام نے میرے بیٹے کے بارے میں گمشدگی کی رپورٹ طلب کی ہے، دوسری طرف ماورائے عدالت تین شہریوں کے قتل پرجموں و کشمیر پولیس نے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی تھی جس نے کیپٹن سنگھ سمیت تین لوگوں کے خلاف “فرضی انکاونٹر” کرانے اور قتل کرنے کے الزام میں چارج شیٹ داخل کی تھی۔

چارج شیٹ میں کہا گیا تھا  کہ کیپٹن سنگھ نے انکاونٹر کے بارے میں اپنے اعلی افسران اور پولیس کو غلط معلومات فراہم کی تھیں۔ پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں نامزد دیگر دو افراد تابش نذیر اور بلال احمد لون کو بھی شامل کیا تھا ، دونوں عام شہری ہیں۔پولیس نے کہا تھا “انکاونٹر کر کے،” تینوں ملزمان نے “جان بوجھ کر ثبوت  مٹا دیے،جان بوجھ کر جھوٹی معلومات کو ایک مجرمانہ سازش کے حصے کے طور پر پیش کیا جو نقد انعامات کیلئے مجرمانہ سازش کے تحت کیا گیا۔تاہم بھارتی، فوج نے اس بات کی تردید کی تھی کہ اس کے کپتان نے نقد انعام کے لیے انکاونٹر کیا،۔چارج شیٹ میں کہا گیا تھا، “ملزم کیپٹن سنگھ نے شواہد کو تباہ کر دیا،

نہوں نے دیگر دو ملزمان کے ساتھ مل کر ایک پناہ گاہ کو آگ لگا دی جہاں انکاونٹر کیا گیا تھا۔ایس آئی ٹی کی چارج شیٹ میں جائے وقوعہ کے فرانزک تجزیہ کی تفصیلات دی گئی  جس کی تصویر “ہر ممکن نقطہ نظر سے” لی گئی تھی۔ ایف ایس ایل (فارنزک اینڈ سائنٹیفک لیبارٹری) کی ٹیم نے اہم شواہد اکٹھے  کیے جنہیں ضبط کر لیا گیا۔

ایس آئی ٹی کی طرف سے پیش کی گئی چارج شیٹ میں 75 گواہوں  کے بیانات لئے گئے تھے ،بشمول ملزمین کے کال ڈیٹا ریکارڈ اور تکنیکی ثبوت بھی فراہم کیے گئے تھے۔۔بعد ازاں ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے تینوں نوجوانوں کی شناخت کی تصدیق ہو گئی۔ ان لاشوں کو اکتوبر 2020 میں بارہمولہ میں ان کے اہل خانہ کے حوالے کیا گیا تھا اور بعد میں انہیں راجوری میں ان کے آبائی گاوں میں دفن کیا گیا تھا۔