اخوت کا نام لیتے ہی اردگرد ایک عجیب سے سائبان اور ٹھنڈی چھاؤں کا احساس ہونے لگتا ہے۔ کڑی دھوپ میں ایک ایسے سایہ دار شجر کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ جو مشکل میں سر پر سایہ بنا رہے گا۔ اپنی موجودگی کا احساس دلاکر ٹوٹے ہوئے حوصلوں کو نیا عزم دے گا۔ڈاکٹر امجد ثاقب وہ قد آور سایہ اور درخت ہے جس نے مجسم ہو کر اخوت کا روپ دھارا ہے۔ انہوں نے زندگی سے بڑے مقصد کو اپنی ذات کا حصہ بنا رکھا ہے کیونکہ یہ مقصد ہمیشہ قائم رہنے والاہے۔ یہ درخت ہمیشہ پھل، پھول، خوشبوئیں اور روشنی دینے والا ہے۔ یہ سفر رکنے والا نہیں ہے۔ برسوں پہلے جب انہوں نے اس رستے کو چنا تو خدا سے ایک بڑا سودا کیا اور پھر کبھی خدا نے انھیں تنہا نہیں کیا۔ نئے راستے نکلتے گئے۔ لوگوں کو خود پر اعتبار کرنا سکھایا تو انہوں نے اعتبار کی لاج رکھنا بھی سیکھ لیا۔ ہمارے ہاں قرض لے کر واپس کرنے کا رواج نہیں رہا لیکن ڈاکٹر امجد ثاقب نے یہ معاملہ سچ ثابت کر کے دکھایا کہ جب آپ کسی کو معاشی اورسماجی طور پر خودمختار بناتے ہیں، اس کی عزت بڑھاتے ہیں تو پھر وہ کس طرح ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ خدا سے کیے گئے سودے کبھی ناکام نہیں ہوتے۔ اس کے ساتھ لگنے والا نفع اصل سے کئی گناہ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ خدا کی یہی منشا ہے کہ اس کی مخلوق کو سکھ کا سانس مہیا کیا جائے۔ ہم خدا سے محبت کرتے ہیں۔ اس کی بندگی کرتے ہیں۔ اس کی چاہت کا اقرار کرتے ہیں۔ ہماری نمازیں، ہمارے روزے، ہماری تمام عبادات دراصل محبت کے پیمان ہیں جو ہم اس سے اپنے قول و قرار کے ذریعے پکا کرتے رہتے ہیں اور اسی محبت کا تقاضہ ہے، اسی محبت کے بدلے میں خدا ہم سے چاہتا ہے کہ اگر مجھ سے پیار کرتے ہو تو پھر میری مخلوق کا بھی خیال کرو جو بے حال ہے جن کے لبوں پر سوال ہے۔ کیونکہ خدا نے اپنی مخلوق کی بھلائی کیلئے لوگوں کو وسیلہ کرنا ہے اور اخوت کے سفر کو قائم رکھنا ہے ورنہ وہ بڑا بے نیاز ہے ساری دنیا کو عطا کرنے والا ہے لیکن انسانوں کی آزمائش اور امتحان بھی مقصود ہے کہ کون اپنے رب کیلئے اپنی خواہشوں، آرزئوں کی اور اپنی پسند کی قربانی دیتا ہے۔ اسے تو یہی اچھا لگتا ہے کہ اسے سب پر فوقیت دی جائے۔ اس کے کہے کو افضل گردانا جائے۔وہ بندہ جس کے پاس وسائل ہوتے ہیں۔ جس کی سوچ میں وسعت ہوتی ہے جو مشکلات کا سامنا کرنا جانتا ہے وہ رب کی مخلوق کی بھلائی کی طرف چل پڑتا ہے تو رب اس پر مہربان ہو جاتا ہے پھر عطااور مہربانی کی ایسی مثالیں قائم ہوتی ہیں کہ دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کنجوس انسان کو نوازاگیا ہو اگر کبھی ایسا ہوا بھی تو وہ سلسلہ جلد ہی ختم بھی ہو جاتا ہے لیکن جو لوگ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں انھیں کئی گنا واپس ملتا رہتا ہے اور وہ ایسی کامیابیاں حاصل کرتے ہیں جو بظاہر ناممکن دکھائی دیتی ہیں۔
یہ دنیا بڑی عجیب ہے۔ خدا نے ہمیں اک سماج میں پیدا کیا ہے اک معاشرہ دیا ہے۔ کائنات کو ایک کنبہ بنا دیا ہے اس میں مل جل کر رہنا اور دکھ سکھ بانٹنا ہی اصل زندگی ہے اگر ہم اپنی زندگی کا دائرہ کار اپنی ذات تک محدود کر لیں، اٹھتے بیٹھتے اپنے رب کا ذکر کرتے رہیں، تمام اعمال کو نیک نیتی سے انجام دیں تو ہماری وہ زندگی خود تک محدود ہو جائے گی۔جب انسان کسی کو فائدہ نہ پہنچا رہا ہو تو وہ اس دریا کی مانند ہوتا ہے جو ایک جگہ رک گیا ہو لیکن جب ہم اپنے دائرے سے نکلتے ہیں بھلے ہم سے کوئی غلطی بھی ہو جاتی ہے لیکن ہماری کاوش سے بہت سے گھروں کا چولہا جلتا ہے، مریضوں کو دوائیاں ملتی ہیں کچھ کی زندگی میں سکھ کے سانس آتے ہیں تو پھر نیکیوں اور اچھائیوں کا پلڑا بہت بھاری ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جب ہم اپنا دائرہ توڑ کر کسی دائرے میں داخل ہوتے ہیں تو پھر کرم کا دائرہ بھی وسیع ہو جاتا ہے۔گورنر ہاؤس میں ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب، ’’چار آدمی ‘‘ کی تقریب رونمائی ہوئی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نہ صرف ایک فلاحی کارکن ہیں بلکہ بہت اچھے لکھاری بھی ہیں اور ان کی تمام تحریریں ان کے مقصد کے اردگرد گھومتی ہیں۔ وہ بیمار بچوں کے حوالے سے الارمنگ نسخے ہوںیا معاشرے میں پھیلی ہوئی معاشی ابتری کو دور کرنے کے ٹوٹکے ہوں یا نوجوانوں کو تعلیم کی روشنی سے بہرہ ور کرنے کی تدابیر ہوں۔ فائونٹین ہائوس کی دردناک داستانیں ہوں۔ ان کے پیچھے گہرا مقصد ہوتا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی حالیہ کتاب میں ڈاکٹر گنگارام، ڈاکٹر خورشید چوہدری، ملک معراج خالد اور اور اخوت یعنی ڈاکٹر امجد ثاقب کا تذکرہ ہے۔ یہ تمام بڑے لوگ ہیں جو بڑے مقصد سے جڑے ہوئے ہیں۔ مجیب الرحمٰن شامی، گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اور دیگر نے کتاب پر بات کی۔ سب نے خود کو اس عمل میں شریک کرنے کا عزم کیا۔ رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ ذات کی تطہیر میں دوسروں کے درد کا مداوا شامل ہے اور یہی رمضان کا بھی سبق ہے۔ اپنی ذات کی تشفی کے لیے اپنے بجٹ میں پیچھے رہ جانے والوں کا حصہ رکھئے اخوت کو یاد رکھیے کہ انسان اخوت کے بغیر کچھ بھی نہیں، جیتے رہئے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ