اسلام آباد(صباح نیوز) وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان اس وقت معاشی تباہی کے ہانے پر کھڑا ہے، عالمی برادری ہنگامی بنیادوں پر افغانستان کی مدد کرے۔
وزارتِ خارجہ اسلام آباد میں ٹرائیکا پلس اجلاس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں ٹرائیکاپلس کے نویں اجلاس میں شرکت کے لئے اسلام آباد آمد پر آپ سب کوخوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ کی یہاں موجودگی ایک پرامن، مستحکم، متحد، خود مختار اور خوش حال افغانستان دیکھنے کی مشترکہ خواہش کی عکاس ہے، ٹرائیکا پلس کا اجلاس تین ماہ کے وقفے سے دوبارہ ہورہا ہے، اس عرصے کے دوران افغانستان بنیادی تبدیلیوں سے گزرا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کابل میں ایک نئی انتظامیہ فعال ہوئی ہے؛ عبوری کابینہ کی تشکیل ہوچکی ہے اور عالمی برادری کی جانب سے بڑے پیمانے پر انخلا ہوا ہے، خوش کن پہلو یہ تھے کہ خونریزی نہیں ہوئی، مہاجرین کے بڑے پیمانے پر ہجرت کے جو خوفناک اندیشے لاحق تھے، ان خدشات سے محفوظ رہے، مستقبل کے اقدام پر طالبان کی طرف سے حوصلہ افزا اعلانات ہوئے اور اہم ترین امر یہ ہے کہ عالمی برادری نے رابطہ استوار رکھا ہے، افغانستان کے ساتھ رابطہ نہ صرف بحال رہنا چاہئے بلکہ کئی وجوہات کی بنا پر اس میں اضافہ ہونا چاہئے تاکہ پھر سے یہ ملک خانہ جنگی کی نذر نہ ہو، کوئی بھی دوبارہ ایسا ہوتے دیکھنا نہیں چاہتا، معاشی انحاط وانہدام کا بھی کوئی خواہاں نہیں، جس سے عدم استحکام بڑھے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ افغانستان کے اندر فعال دہشت گرد عناصر سے موثر انداز سے نمٹاجائے اور ہم سب کی خواہش ہے کہ مہاجرین کے ایک نئے بحران سے بچا جائے، افغانستان سے متعلق ہم سب کی تشویش وفکر مندی مشترک ہے جبکہ وہاں امن واستحکام ہم سب کے مشترکہ مفاد میں ہے، ان سب کا حصول ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، اس صورتحال میں ٹرائیکا پلس نے نمایاں اہمیت حاصل کرلی ہے اور اس کا کلیدی کردار ہے جو اسے ادا کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پراعتماد ہیں کہ ٹرائیکا پلس کے نئی افغان حکومت سے امور کار، امن واستحکام کے فروغ ، پائیدار معاشی ترقی میں مددگار ثابت ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے اندر سرگرم دہشت گردوں کے لئے گنجائش مسدود ہوتی چلی جائے گی، افغانستان اس وقت معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، عالمی مالی امداد کے نہ ہونے سے تنخواہوں کی ادائیگی تک میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، عام آدمی بدترین قحط کے شدید اثرات کا شکار اور اس سے متاثر ہے، صورتحال میں مزید تنزلی نئی انتظامیہ کی حکومت چلانے کی استعداد کو بری طرح محدود کردے گی، اس لئے ضروری ہے کہ عالمی برادری ہنگامی بنیادوں پر انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے تحرک کرے، صحت، تعلیم اور شہری خدمات (میونسپل سروسز)کی فراہمی کو فوری توجہ درکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کو اپنے منجمد وسائل کی رسائی سے معاشی سرگرمیاں پیدا کرنے کی ہماری کوششوں کو تقویت ملے گی اور افغان معیشت استحکام اور پائیداری کی طرف گامزن ہوپائے گی، اسی طرح اقوام متحدہ اور اس کے اداروں پر زور دیا جائے کہ وہ عام افغان شہریوں تک رسائی کے طریقے تلاش کریں اور اس صورتحال میں ان کی مدد کریں،افغانستان میں امن واستحکام قریب ترین ہمسائے کے طورپر پاکستان کے براہ راست مفاد میں ہے، پاکستان اور افغانستان مشترکہ ورثہ اور تاریخ رکھتے ہیں، ہم افغانستان کے ہر طبقہ و نسل کو ملک کی حتمی منزل کے لئے اہم تصور کرتے ہیں۔
انہوںنے کہا کہ افغانستان قریبی ہمسائیہ ہونے کے ناطے ہم نے گذشتہ چار دہائیوں میں، مہاجرین، منشیات اور دہشت گردی کی صورت میں اس تنازعے اور عدم استحکام کا براہ راست نقصان اٹھایا ہے، ہم موجودہ صورتحال کو اس طویل تنازعے اور لڑائی کے خاتمے کا ایک موقع گردانتے ہیں، اس سمت میں ہم نے پہلے ہی متعدد اقدامات کئے ہیں تاکہ افغانستان میں عام آدمی کو سہولت ملے، پاکستان نے افغانستان میں کسانوں کی مدد کے لئے کھانے پینے کی اشیاکو کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ قرار دے دیا ہے، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی اور پیدل آمدورفت کی سہولت دی گئی ہے، ہم نے کورونا وبا کے دوران سرحد کو کھولے رکھا، بیماروں اور علاج کے لئے آنے والوں کو ان کی آمد پر ویزا کی فراہمی کی سہولت دی گئی ، 15 اگست کے بعد سے میں نے مختلف ممالک کے اپنے متعدد ہم مناصب کی میزبانی کی، ہم افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے ہماری علاقائی پلیٹ فارم کی تشکیل کی تجویز کی حمایت کی تاکہ تشویش کے مشترک نکات اور مواقعوں پر بات چیت ممکن ہوسکے۔
انہوںنے کہا کہ اجلاسوں سے ٹھوس نتائج برآمد ہوئے ہیں اور مستقبل کی راہ عمل کی حامل دستاویزات میسرآئی ہیں، پاکستان اور بیرون ملک ان تمام رابطوں کے دوران عالمی برادری اور نئی افغان حکومت کو ہمارا ہمیشہ یہ پیغام رہا ہے کہ رابطے استوار رکھے جائیں اور باہمی اتفاق سے آگے کی راہ تلاش کی جائے، گذشتہ ماہ کابل کے میرے دورے سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ افغانستان کی نئی حکومت کی عالمی برادری سے کیا توقعات ہیں، اس سے ہمیں یہ موقع بھی میسر آیا کہ طالبان قیادت کو ہم اپنی رائے سے آگاہ کریں اور عالمی برادری کی ان سے توقعات کو اجاگر کریں، ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان رابطے میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا انہیں تسلیم کرے اور ان کی مدد کرے، لہذا یہ کلیدی امر ہے کہ عالمی برادری ماضی کی غلطیاں دوہرانے سے بچے اور مثبت رابطہ جاری رکھے، اپنے حصے کے طور پر میں امن، ترقی اور خوش حالی کے راستے پر افغانستان کی مدد کرنے کے ہمارے وزیراعظم کے عزم کا اعادہ کرتا ہوں۔