عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کردی گئی جس پر گنتی سات دن کے اندر ہو جائے گی لیکن اس سے پہلے سیاسی طور پر بڑی پیش رفت ہو گئی حکومت میں شامل بعپ اپنے چار ساتھیوں سمیت حکومت خیرباد کہہ کر حزب اختلاف کے ساتھ مل گئی۔ پنجاب کے وزیراعلی وسیم اختر پلس اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے پرویز الاہی کو پنجاب کی بھاگ دوڑ دینے کا وعدہ کیا گیا۔ لیکن یے بھی یاد رہے کہ پرویز الاہی کو اسیمبلی سے اعتماد کا ووٹ ملیگا یا نہیں یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ ق لیگ کے چیمہ صاحب وزارت چھوڑ کر حکومت سے نکل گئے۔ حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم کو ایک اور وزارت دینے کی آفر کی گئی ہے۔ اس سارے ماحول میں کوئی بھی فیصلا حتمی نہیں۔ لمحہ بلمحہ حالات بدلتے رہینگے۔ ووٹنگ کے دن تک کافی کچھ سننے اور دیکھنے کو ملے گا لیکن اب بات صرف وزیراعظم کے سرپرائز کی کرتے ہیں۔
مارچ کا پورا مہینہ سیاسی طور پر اوچ نیچ کا شکار رہا ہے۔ موسم کی تبدیلی کے ساتھ سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھتا رہا۔ پی پی پی اور پی ڈی ایم نے جب سے مشترکہ طور پر حکومت کے خلاف کمر کس لی تب سے نہ گھبرانے والے وزیراعظم صاحب بالکل ہی گھبرانے لگ گئے۔ ان کی گھبراہٹ کا اندازہ ان کی تقاریر اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کے بارے استعمال کردہ القاب سے لگایا جا سکتا ہے۔ گفتگو سے انسان کی خاندانی تربیت اور ذہنی کیفیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ پرسکوں ذہن میں ہمیشہ تعمیری سوچ ہوتی ہے اور منتشر ذہن میں جھگڑا اور فتور کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ کچھ ایسی کیفیت ہمارے وزیراعظم صاحب کی بھی ہے۔ جب سے سیاسی رساکشی کا کھیل بڑھتا گیا تب سے تمیز کا میدان بھی سکڑتا سکڑتا نہایت ئی چھوٹا سا ہو گیا۔ عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد آئینی طور پر اسپیکر 14 دنوں میں اسیمبلی کا اجلاس بلانے کا پابند ہوتا ہے لیکن افسوس کہ اس دفعہ آئین کو ایک طرف رکھ کر اجلاس اپنی مرضی سے بلایا گیا۔
عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے حزب اختلاف کے رہنماؤں کی ملاقاتوں نے سرکار کو گھما کے رکھ دیا۔ سرکار کبھی ق لیگ کی وجہ سے پریشان تھی تو کبھی ایم کیو ایم کی باتوں سے اس کے درد سر میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ خان صاحب نے اپنی پریشانی کا بدلہ لینے کیلئے 27 مارچ کو دارالحکومت میں لاکھوں کے مجمعے کے سامنے سرپرائز دینے کا اعلان کر کے سب کو حیران کر دیا۔ جیسے جیسے دن گذرتے گئے ویسے ویسے جتنے منہ اتنی باتیں ہونے لگیں۔ سیاسی اکابرین سر جوڑ کے بیٹھ گئے کہ خان صاحب کون سا سرپرائز دینگے؟ کسی نے کہا کہ خان صاحب نئے آرمی چیف کا اعلان کرینگے کسی نے کہا استعفیٰ دے کر کے نئی الیکشن کا اعلان کرینگے۔ برحال پوری قوم کو 27 مارچ کا عید کی چاند کی طرح انتظار تھا۔ خدا کرتے کرتے 27 مارچ کا دن نکل آیا پوری قوم اپنے روزمرہ کے کام جلدی جلدی سے نمٹانے لگ گئی۔ لوٹنے والے گھروں کو لوٹ آئے دفاتر کے امور جلدی سے نمٹائے گئے۔بازاروں کی رونقیں ماند پڑ گئیں کیونکہ ہمارے وزیراعظم صاحب اپنی تقریر میں اہم سرپرائیز جو دینے والے تھے۔ کراچی سے خیبر تک تحریک انصاف کے ٹائیگرز اپنے محبوب لیڈر کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ کی رونقیں بڑھانے لگے۔ جیسے میں نے پہلے کہا کہ سب کو خان صاحب کے سرپرائز کا انتظار تھا تو اس لیئے دیگر رہنماؤں کی تقریریں وقت پاس کا ذریعہ محسوس ہو رہی تھیں۔ میں نے بھی اہم رہنماؤں کی تقریریں یہ سوچ کر سنی کہ شاید کہیں سے کوئی اشارہ مل جائے کہ خان صاحب کون سا سرپرائز دینے والے ہیں؟ لیکن سب نے ایک اچھے شاگرد کی طرح اپنا رٹا لگایا ہوا سبق پڑھ کے سنایا جو 2014 سے شروع ہوا اور اب تک سنائی دے رہا ہے جیسا کہ چور لٹیرے ڈاکو این آر او کسی کو نہیں دونگا وغیرہ وغیرہ لیکن اس دفعا چوہے شوباز بیماری جیسے کچھ الفاظ کا اضافہ بھی سننے کو ملا۔ اسد عمر نے اپنے خطاب میں الیکشن کی بات کرکے کچھ لمحے کیلئے سوچنے پے مجبور کیا کہ شاید خان صاحب الیکشن قبل از وقت کا اعلان کرنے والے ہیں۔ شاہ محمود نے اپنی وفاداری کی بات کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ممکن ہے خان صاحب استعفیٰ دے دیں۔ حلف لینے سے بھی یہ تاثر اٹھا کہ شاید خان صاحب اپنی آخری تقریر کر رہے ہیں۔ لیکن سب تدبیریں بیکار ہو گئیں۔ خان صاحب نے پونے دو گھنٹے قوم کو اپنے سرپرائز کے سحر میں خوب جکڑ کے رکھا۔ سرپرائز کی آس لگا کر بیٹھی قوم کو قطری خط کے بعد مبینہ طور پر دھمکی والا خط صرف دور سے دکھایا گیا۔ خان صاحب ممکنہ طور پر اپنی شکست دیکھ کر اس کے تانے بانے بیرونی ممالک کے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمیدار ٹھرانے کی بات بھی کر رہے ہیں۔ کسی بیرونی طاقتور ملک کی جانب سے حکومت چھوڑنے کی دھمکی والا خط بھی لہرایا گیا۔ خان صاحب اپنے طرز حکومت کو شہید ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے ساتھ تشبیہہ بھی دینے لگے۔ خان صاحب نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ آزاد خارجہ پالیسی کی بنا پر ذوالفقار علی کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اور میری حکومت ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن خان صاحب کو یہ کون سمجھائے کہ بھٹو صاحب نے امریکا کہ ھینری کسنجری کا نام لیکر پارلیامنٹ میں ان کی دھمکی کا ذکر کیا تھا لیکن خان صاحب آپ نے خط تو دور سے دکھایا(ممکن ہو کچھ ہو ئی نہ) لیکن کسی کا نام لینے کی ہمت تک نہیں کی اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ڈرے ہوئے ہیں۔لیڈر نہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ ہی کبھی گھبراتا ہے۔ برحال خان نے پہاڑ تو کھودا لیکن چوہا مرا ہوا نکالا۔