میلہ چراغاں :ایک زندہ روایت۔۔۔تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


لاہور میں ان دنوں میلہ چراغاں اپنی پوری آب و تاب سے جاری ہے ۔مارچ کا مہینہ بہار کا مہینہ کہلاتا ہے۔ یہ زندگی کے نئے موسموں کی شروعات کا آغاز ہے۔ کئی مہینے زمین میں چھپے نشو ونما کے بیج منجمد کر دینے والی فضا کے سحر سے آزاد ہونے کا جتن کرتے تھک جاتے ہیں۔ مارچ کی طاقتور ہوا جبر اور کرب کے خیمے بہا لے جاتی ہے تو زندگی انگڑائی لے کر دھرتی کے کھلے صحن میں وارد ہوتی ہے،اس کے ساتھ رنگوں اور خوشبوؤں کا ہجوم ماحول کو تراوت بخشنے اور ٹوٹے ہوئے حوصلوں کو جوڑ کر پھر شاہراہِ زندگی پر راستے تلاش کرنے کی امید بنتا ہے۔

صدیوں سے اس سرزمین پر بہار کے موسم کو میلوں ٹھیلوں کے ذریعے منایا جاتا رہا ہے۔ صوفیاء کے درباروں سے وابستہ میلے بھی زیادہ تر اسی موسم میں منعقد ہوتے ہیں۔ عظیم صوفی شاعر شاہ حسینؒ کا عرس مبارک مارچ کی خوشیوں کو دوبالا کرتا ہے۔عشق کی لے پر جھومنے والے سال بھر اس میلے کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ میلہ جو کبھی پورے لاہور کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا تھا اب حالات کی وجہ سے دربار اور ثقافتی اداروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے مگر اس کے ساتھ جڑا آفاقی پیغام آج بھی تمام بندشیں توڑ کر لامحدود کی طرف رواں دواں ہے۔ یوں تو شاہ حسینؒ کی زندگی،شاعری اور اس وقت کے حالات کے تناظر میں کئی موضوعات پر بات کی جاسکتی ہے مگر آج ہم صرف شاہ حسینؒ کی رب کوہر دم یاد رکھنے کی ضرورت پر بات کریں گے۔متعدد بار کلام شاہ حسین میں ہمیں رب کو نہ بھولنے کی تلقین سنائی دیتی ہے۔صوفی شاعر اپنے معشوقِ حقیقی سے والہانہ عشق کرتے ہیں اور جس سے عشق ہو اسے یاد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ تو سانس کی طرح دھڑکن میں سمایا رہتا ہے۔ انسان کا وجود قطرے اور سمندر کی شکل بن کر محبوب کی صورت میں ڈھل جاتا ہے۔

شاہ حسینؒ کے کلام رب۔نی تینوں رب نہ بھلی، ہور سبھ کجھ بھلی، رب نہ بھلن جہیا،میں انسانی فطرت کے لئے ایک معیار رکھا گیا ہے۔ رب کیساتھ اخلاقیات کا طاقتورنظام جڑا ہوا ہے۔ جب ہم رب کو ہر لمحہ یاد رکھتے ہیں تو اپنے اندر پنپنے والے متشدد فرعونوں کے شر سے بچے رہتے ہیں بلکہ جبلت میں موجود عدم برداشت،ظلم، بادشاہت اور تکبر کو خیر میں ڈھالنے کا جتن کرتے ہیں۔ہمیں اپنی ذات پر ایک پہرہ اور سایہ محسوس ہوتا ہے،جسے ہم جواب دہ ہیں،یہ احساس کہ ہمارے برے اعمال پر ہمیں بھی سزا دی جاسکتی ہے برائی کا رستہ ترک کرنے کے لئے کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ذرا سوچیں اگر اخلاقیات کا نظام باقی نہ رہے تو دنیا مادیت کے جال میں پھنس کر رہ جائے، عام لوگوں کو رہنے دیں سگے بہن بھائی،والدین،بچے اوررشتہ دار دولت اور طاقت کے لئے ایک دوسرے پر ظلم کرنا شروع کردیں۔دولت،رتبے اور طاقت زندگی کا حصول بن جائیں اور یہ دنیا جہنم کا نقشہ۔رب کی موجودگی کا احساس انسان کے اندر بیٹھے بے لگام جبلی جانور کو قابو میں رکھتا ہے،وہ شیطانی عمل سے ارادتاً باز رہ کر رحمانی چھاؤں کی جانب سفر کرتا ہے۔زمین کے اندر اور سطح پر مختلف دنیائیں آباد ہیں مگر دونوں کا آپس میں گہرا رابطہ ہے،دونوں ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہیں ۔ ایک دوسرے کو ترقی اور تنزلی کے مراحل سے گزارتی ہیں۔ اسی طرح انسان کے وجود میں بھی ظاہر اور باطن دو طاقتیں ہیں۔ جب تک ان کے درمیان دوستی اور ہم آہنگی نہ ہو انسان انسانیت کے شرف سے دور رہتا ہے۔صوفی انسان کی توجہ کو اپنے اندر اس روشن دان کی تلاش پر مائل کرتا ہے جس سے وہ دونوں طرف کی روشنی سے منور ہو سکتا ہے۔ظلم وبربریت کی نئی شکلیں متعارف ہو چکی ہیں۔ فلاحی کی بجائے تباہی کے راستے زیادہ پرکشش بنا دئیے گئے ہیں۔ایسے میں اجتماعی ضمیر پر سمجھوتے کی چادر نے نیم بے ہوشی طاری کر رکھی ہے۔’’میں‘‘ کی بڑھتی اہمیت نے انسانیت کو تنہا کر دیا ہے۔نسلوں کے درمیان سماجی اور فکری اختلاف ہمیشہ موجود رہا ہے مگر موبائل پر رنگارنگ دنیاوں نے ایک گھر کے بچوں اور بڑوں کے درمیان خلیج گہری کر دی ہے۔ سب الگ نظام کے پیروکار بن کر زندگی گزارنے لگے ہیں جس میں مقصدیت کی کمی ہے۔ ذات تک محدود ترقی بڑا مقصد نہیں ہو سکتی۔یقینا زندگی کا سب سے بڑا مقصد انسانیت کی فلاح وبہبود اور بقا میں ہی ہے۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہر عمل کا ردعمل نتیجے کی صورت میں ہمارے سامنے ضرور آتا ہے اس لئے رب کی رضا کو ملحوظِ خاطر رکھ کر زندگی گزاریں گے تو سکون اور خیر پائیں گے ورنہ عناصر کے اندر چھڑی جنگ ہمیں ہر لمحہ مضطرب رکھے گی۔ انسان بہتر زندگی جی کر کمال بھی کر سکتا ہے اورغلط رستہ منتخب کرکے زوال بھی خرید سکتا ہے۔اسلئے رب کے اطاعت گزار بنیں،رب بننے کی کوشش نہ کریں، ہر وقت فائدے کیلئے انسانوں میں تفرقہ نہ ڈالیں۔ لوگوں کو امن،محبت اور بھائی چارے کی رسی میں پروئیں۔ اسی میں نجات ہے۔ آئیے میلہ چراغاں پر روشن چراغوں کی لو سے اپنے دلوں کے آنگن روشن کریں تاکہ ہماری بصارت کی سمت درست ہوسکے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ