گزشتہ ہفتے ایک کالم میں نے فقط یہ عرض گزارنے تک محدود رکھا کہ ہمارا آئین تحریری ہے۔ اس نوع کے آئین میں ابہام کی گنجائش نکالنا بہت دشوار ہے۔اجرتی قاتلوں کا رویہ اختیار کرتے ہوئے چند ماہرینِ قانون نے مگر ہمارے ہر حکمران کو من پسند توجیہات سے غلط راہ پر دھکیلنے کی کوشش کی۔ان کی درفنطنیاں اگرچہ کسی بھی حکمران کے کام نہیں آئیں۔ بسااوقات بلکہ لینے کے دینے پڑگئے والی خجالت ہی نصیب ہوئی۔
وزیراعظم کو ہمارے تحریری آئین نے تمام ریاستی اور حکومتی امور کی بابت چیف ایگزیکٹو ٹھہرارکھا ہے۔بے پناہ اختیارات کے حامل اس شخص کو عوام کے براہ راست ووٹوں کی بدولت قائم ہوئی قومی اسمبلی منتخب کرتی ہے۔ وہ کسی اور ادارے کی جانب سے نامزد نہیں ہوتا۔ جمہوری نظام کے تقاضوں کے عین مطابق وزیراعظم منتخب کرنے والے ادارے یعنی قومی اسمبلی ہی کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ اگر وہ اس عہدے پر فائز شخص کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہو تو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اسے گھر بھیج دے۔مذکورہ تناظر میں ہمارے آئین کی شق 95-اےمیں واضح طریقہ کار بھی طے کردیا گیا ہے۔
عمران خان صاحب کے اندازِ سیاست اور حکمرانی کے بارے میں شدید ترین تحفظات کے باوجود میں خلوص دل سے خواہش مند تھا کہ انہیں اپنے منصب کی آئینی مدت مکمل کرنے کی سہولت فراہم کی جائے۔ اپوزیشن جماعتوں نے مگر اس کے برعکس رویہ اختیار کیا جو ان کا آئینی اور سیاسی حق بھی ہے۔
اپنے حق کو بروئے کار لانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں نے ہمارے آئین میں طے شدہ قواعد کے مطابق آج سے دو ہفتے قبل قومی اسمبلی کے دفتر میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروادی۔ مذکورہ تحریک پر گنتی کے عمل کو تیز تر بنانے کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست بھی اسی روز پیش کردی گئی۔ دونوں درخواستیں جمع ہوجانے کے بعد حکومت کے لئے لازمی ہوگیا کہ 21مارچ تک قومی اسمبلی کا اجلاس ہر صورت طلب کرے اور مارچ کی 28تاریخ تک دنیا کو دکھادے کہ عمران خان صاحب اکثریت کی حمایت سے محروم ہوچکے ہیں یا نہیں۔
میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کے مقابلے میں وزارت عظمی کے منصب پر فائز شخص کو منظم اور جدید ترین آلات سراغ رسانی سے لیس اداروں کی جانب سے بے تحاشہ موضوعات کی بات مسلسل اور ٹھوس اطلاعات فراہم کی جاتی ہیں۔عمران خان صاحب اس نظام کی بدولت بخوبی جان چکے تھے کہ ان کی جماعت کی ٹکٹ پر جولائی 2018 کے انتخاب میں قومی اسمبلی تک پہنچنے والے اراکین میں سے کم از کم 25افراد اپوزیشن جماعتوں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ رابطوں کا یہ سلسلہ گزشتہ برس کے مارچ میں شروع ہوا تھا۔اس کی بدولت یوسف رضا گیلانی حکومت کے نامزد کردہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو اسلام آباد سے سینٹ کی ایک نشست کے لئے خفیہ رائے شماری کے ذریعے شکست دینے میں کامیاب ہوہے۔ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی مگر عمران حکومت کو حتمی ضرب لگانے میں ناکام رہی۔ وزیر اعظم صاحب نے گیلانی صاحب کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے کر اپنی اکثریت ایک بار پھر ثابت کردی۔ اس کے علاوہ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ کے منصب پر دوبارہ منتخب کروانے میں بھی کامیاب رہے۔
اب کی بار مگر تحریک انصاف کو خیرباد کہنے کو تیار اراکین اسمبلی وزیر اعظم کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر ووٹ دینے کو بھی آمادہ ہیں۔ان کی تعداد کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمران خان صاحب کے جی میںیہ فطری خواہش پیدا ہوئی کہ تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے عمل کو زیادہ سے زیا دہ دنوں تک موخر کرنے کی کوئی صورت نکالی جائے۔ اجرتی قاتلوں کا روپ دھارے ماہرینِ قانون مصاحبوں نے ان کی خواہش پرعملدرآمد یقینی بنانے کے لئے مضحکہ خیز تاویلات کے انبار جمع کردئے۔
پیا کے من کو بھاتی تلاویلات نے عمران خان صاحب کو جو مہلت فراہم کی اس کے دوران وزیراعظم نے عوام کے ساتھ براہ راست رابطوں کے ذریعے اپنی حمایت کا جارحانہ ماحول بنانے کی کوششیں شروع کردیں۔ ان کے جنونی حامی تحریک انصاف کے منحرف اراکین کو ضمیر فروش لوٹے پکارتے ہوئے معتوب بنانے میں مصروف ہوگئے۔منحرف اراکین کی نشاندہی سے مگر گریز برتا۔
وزیراعظم اور ان کے حامیوں کو مزید پریشان کرنے کے لئے مگر گزرے جمعہ کے روز اپوزیشن جماعتوں نے اپنی پناہ میں آئے چند منحرف اراکین کو کیمروں کے روبرو لانے کا فیصلہ کیا۔ وہ منظرعام پر آئے تو تحریک انصاف کے چند جنونی کارکن منحرف اراکین کو سبق سکھانے اسلام آباد میں قائم سندھ ہاؤس پر یلغار کی صورت حملہ آور ہوگئے۔ کراچی سے منتخب ہوئے دو اراکین قومی اسمبلی کامل ڈھٹائی سے انہیں اشتعال دلاتے نظر آئے۔
اسلام آباد کے سندھ ہائوس پر یلغار کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ اس کے ردعمل میں سندھ میں چند ایسے واقعات بھی رونما ہوسکتے تھے جو اس صوبے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے راولپنڈی میں برسرعام قتل کے بعد پھوٹ پڑے تھے۔پیپلز پارٹی کی قیادت نے مگر قابل ستائش تحمل کا مظاہرہ کیا۔ برداشت کی مگر ایک حد ہوتی ہے۔غالبا اس حد کو برقرار رکھنے کے لئے سپریم کورٹ نے خلاف معمول ہفتے کی دوپہر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے پیش ہوئی ایک درخواست پر فوری سماعت کا فیصلہ کیا۔
ابتدائی سماعت کے بعد جاری ہوئے تحریری حکم کے ذ ریعے سپریم کورٹ نے سادہ ترین الفاظ میں واضح کردیا ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو آئین کی شق 95۔اےکے تحت ہی نمٹانا ہوگا۔ مذکورہ حکم بین السطور یہ عندیہ بھی دے رہا ہے کہ عمران حکومت اور اس کے سیاسی مخالفین کو اسلام آباد میں اپنے حامیوں کی جتھہ بندی کی اجازت بھی اسی تناظر میں میسر نہیں ہوگی۔ تحریک عدم اعتماد کا حتمی نتیجہ فقط قومی اسمبلی کے ایوان میں کھلے بندوں ہوئی رائے شماری کے ذریعے ہی برآمد کرنا ہوگا۔ مذکورہ حکم آجانے کے بعد حکومت اب یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ 25مارچ کے دن قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلے گی۔ خود کو نورتن شمارکرتے ماہرین قانون کی درفنطنیاں لہذا الٹی ہوگئی سب تدبیریں کی صورت اختیار کرچکی ہیں۔
آئین کی شق 63۔اےیقینا ان اراکین قومی اسمبلی کی نااہلی کی راہ دکھاتی ہے جو قائدِ ایوان یعنی وزیراعظم کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کے دوران پارٹی قیادت کی ہدایات کے برعکس اپنی رائے کا اظہار کریں۔ انہیں ووٹ کا حق استعمال کرنے سے تاہم ہمارا آئین ہرگز نہیں روکتا۔ نااہلی اور نشست سے محروم ہوجانا بھی آئینی اور قانونی تناظر میں دو جدا معاملات ہیں۔ اعلی عدالتیں ہی ان دو معاملات میں تخصیص اجاگر کرسکتی ہیں۔ تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے عمل کو مگر 28مارچ کے دن تک ہر صورت مکمل کرنا ہوگا۔
تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کو اب وزیر اعظم عمران خان صاحب اپنے عہدے سے استعفی کا اعلان کرتے ہوئے ہی ٹال سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کے جو منحرف اراکین منظر نام پر آچکے ہیں ان کی اکثریت اپنی رائے بدلنے کو اب کسی صورت آمادہ نہیں ہوگی۔ منحرف اراکین کی تعداد اور بے باکی نے بلکہ اتحادی جماعتوں کو بھی واضح فیصلہ کا اعلان کرنے کو مجبور کردیا ہے۔ مجھے گماں ہے کہ ان کی جانب سے ممکنہ اعلان 24مارچ کی شام تک آجائے گا۔تحریک عدم اعتماد کا انجام اس کے بعد دیوار پر لکھا ہوا نظر آئے گا۔ بہتر یہی ہوگا کہ ممکنہ پیغام کو آج ہی پڑھ لیا جائے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت