دنیا میں کہیں بھی انسانوں کا آئی کیو لیول ایک جیسا ہے نہ صلاحیتوں کے حوالے سے وہ ایک قطار میں کھڑے ہیں۔ جس طرح دنیا میں رنگا رنگی موجود ہے اسی طرح ہر فرد بھی ایک کائنات ہے، ایک جہان ہے اس کے اندر بھی مختلف دنیائیں آباد ہیں۔ جن کے اچھے برے پہلو اور اثرات اس کی شخصیت اور عمل میں منعکس ہوتے ہیں۔ ہر فرد کا ایک جیسے حالات میں بھی جذبات و احساسات کا اظہار، سوچنے سمجھنے کی گہرائی اور ردَعمل مختلف ہوسکتا ہے۔ وہی لوگ کامیاب کہلاتے ہیں جو دوسروں کی مخالف سمت جانے والے نظریات اور رویوں کو تسلیم کر کے ان کا احترام کرتے ہیں اور اسے دوستی کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیتے۔ کئی بار ایک مخصوص دوستانہ گروپ میں کم وبیش ایک جیسے نظریات رکھنے والے بھی ہوں تو مثبت اور منفی سوچ کا فرق ان کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ انسان بنیادی طور پر اکیلا ہے۔ اسی وجہ سے اس نے اپنی ابتدائی زندگی کی طرح مل جل کر رہنے کی بجائے الگ گھر تعمیر کئے جہاں وہ اپنی ذات کی ہم آہنگی میں خوش رہ سکے اور اسے کسی ناپسندیدہ صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وہ مخصوص وقت کے لئے دوسروں کو برداشت کر سکتا ہے مگر ہمیشہ کے لئے نہیں۔ قسمت نہ چھینی جاسکتی ہے نہ گِلے شکوے اور رونے پیٹنے سے حاصل کی جاسکتی ہے، نہ ہم حسد کی آگ جلا کر کسی کا مقدر میلا کر سکتے ہیں بلکہ یہ حسد ہمیں اندر سے کھوکھلا اور بے چین کرتا ہے۔ صورتحال اس وقت شدید مسائل کا باعث بنتی ہے جب ارد گرد کے لوگ بھی ویسا نتیجہ چاہتے ہیں جو ان میں سے کسی کو عطا ہوتا ہے اور ناکامی کے بعد انتقام پر اُتر آتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ خدا نے ہر شخص کو جداگانہ صلاحیتوں، قابلیتوں کے ساتھ مختلف ذمہ داریاں سونپی ہیں۔ کینوس پر تصویر بنانے والا عظیم فنکار انجینئرنگ کا کوئی بڑا حقیقی منصوبہ ڈیزائن نہیں کر سکتا۔ اس کی سطح جمالیاتی ذوق کی تسکین ہے اور اس کے اندر پھیلے رنگوں اور جذبوں کا برش کے ذریعے اظہار ہے اگر وہ اس سے ہٹ کر کام کرے گا تو ناکام ہو گا۔ اِس سے ’’جس نے اَپنے آپ کو پہچانا، اُس نے اپنے رب کو پہچانا‘‘ کی حقیقت عیاں ہوتی ہے۔ یعنی رب نے انسان کو جس کام کے لئے پیدا کیا ہے اس کے بارے میں انسان آگاہ ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس پر اپنا باطن اور ذمہ داریوں کا نقشہ عیاں ہو جاتا ہے اور وہ درست سمت میںسفر کا آغاز کرتا ہے ۔ ہمارے ارد گرد بہت سے لوگ بستے ہیں کچھ چاہے اور کچھ ان چاہے اپنی پسند ناپسند کے مطابق ہمیں مخالف دائروں میں کھینچتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات ہم خود کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں اور ان سے ملنے والی اذیت سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں لیکن اندر ہی اندر کڑھتے رہتے ہیں۔ وہ ہمیں دکھ دے کر خوش ہوتے ہیں اور ہم مجبوراً سہہ کر ان کا بھرم رکھتے ہیں لیکن ایک دن ایسا ضرورآتا ہے جب چھوٹی چھوٹی اذیتیں بڑے دکھ بن جاتی ہیں اور پورے وجود کو افسردہ کر دیتی ہیں۔خدا نے ہمیں آزاد پیدا کیا ہے اپنے ساتھ مختلف دُم چھلے ہم نے خود لگا رکھے ہیں۔ ہمیں اپنی زندگی کی خوشی اور اطمینان مدنظر رکھنا چاہئے۔ اپنی ذات کے مطالبات پر دھیان دینا چاہئے۔ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ نہ صرف اذیت کا باعث بننے والے لوگوں سے فاصلہ اختیارکر لیا جائے بلکہ دکھ کا باعث بننے والی یادوں کو بھی ذہن سے ڈیلیٹ کر دینا چاہئے۔ یہ سوچ کر کہ ہر فرد فطرت کے مطابق ہی آگے بڑھ رہا ہے اور خیروشر کا تناسب بھی اسی پر قائم ہے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو انسانیت کے اعلیٰ درجے تک پہنچ کر شخصیت کے منفی اثرات کو مثبت رنگ میں بدلتے ہیں۔ بری یادوں کی گٹھڑی سر پر اٹھا کر سفر کو مشکل بنانے کی بجائے گٹھڑی کو دفن کر دینا چاہئے اور رفتار کو بڑھا لینا چاہئے۔ اسی طرح خونی رشتوں کا معاملہ ہے، ایک والدین کی اولاد کی سوچ، رویوں، پسند ناپسند، رحجانات اور صلاحیتوں میں بہت فرق ہوتا ہے جس کی وجہ سے تلخیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسلئے ان کے معاملات سے علیحدہ ہونا بھی ضروری ہے۔ جہاں ممکن ہو مدد کریں مگر انھیں اپنی زندگی میں دخل دینے کا اختیار نہ دیں۔ زندگی کو ناگوار بوجھ سے چھٹکارا دلا کر شب و روز کو آسان کریں اور بڑے مقصد کو اپنائیں یقیناً اسی میں اطمینان اور سرخروئی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ