سانحہ اے پی ایس ازخود نوٹس کی سماعت ، وزیراعظم پیش ،4 ہفتوں میں رپورٹ طلب


اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سانحہ اے پی ایس کیس میں طلبی پر وزیراعظم عمران خان ذاتی طور پر عدالت عظمی کے سامنے پیش ہوگئے،اور انہوں نے سانحہ کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرادی ہے جس کے بعد عدالت نے 4 ہفتوں میں سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داروں کے تعین کا حکم دیتے ہوئے وزیراعظم سے اقدامات کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔

آج چیف جسٹس آف  پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سانحہ آرمی پبلک سکول از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا، وزیراعظم کو عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کریں گے، ایسے نہیں چلے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انٹیلی جنس پر اتنا خرچ ہورہا ہے لیکن نتائج صفر ہیں، اپنے لوگوں کے تحفظ کی بات آئے تو انٹیلی جنس کہاں چلی جاتی ہے؟ بچوں کو اسکولوں میں مرنے کے لئے نہیں چھوڑ سکتے، چوکیدار اور سپاہیوں کے خلاف کارروائی کر دی گئی، اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی، اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لے کر چلتے بنے، کیا سابق آرمی چیف اور دیگر ذمہ داران کے خلاف مقدمہ درج ہوا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف انکوائری رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اداروں کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن کا رد عمل آئے گا، سب سے نازک اور آسان ہدف سکول کے بچے تھے، یہ ممکن نہیں کہ دہشت گردوں کو اندر سے مدد نہ ملی ہو۔

دوران سماعت عدالت میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا بھی تذکرہ ہوا۔ جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں؟ اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کررہی ہے۔سماعت میں ساڑھے گیارہ بجے تک وقفہ کیاگیا ، وقفے کے بعد وزیراعظم عمران خان سپریم کورٹ کے حکم پر سانحہ آرمی پبلک اسکول از خود نوٹس کیس پیش ہوئے، اس موقع پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید اور دیگر وزرا اور اہم حکام بھی موجود تھے۔

عدالتی استفسار پر وزیر اعظم  عمران خان نے کہا کہ جب یہ واقعہ ہوا تو میں فوراً پشاور پہنچا، میں تو اس وقت حکومت میں نہیں تھا، سانحہ کے وقت صوبہ میں ہماری حکومت تھی، ہم نے ہر ممکن اقدامات اٹھائے۔جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ تو ان لوگوں سے مذاکرات کررہے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ کے مطابق کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے آئین کی کتاب اٹھالی اور ریمارکس دیئے کہ یہ آئین کی کتاب ہے، آئین پاکستان میں عوام کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے، ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلانے کے لیے کیا کیا؟ اب تو آپ اقتدار میں ہیں، مجرموں کو کٹہرے میں لانے کے لیے آپ نے کیا کیا؟ ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں، ہم یہ پوچھ رہے ہیں کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی مجرموں کا سراغ کیوں نہ لگایا جا سکا؟۔وزیراعظم نے کہا کہ میں نے اس وقت کہا تھا یہ امریکا کی جنگ ہے، ہمیں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، 80  ہزار لوگ دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہوئے۔

اے پی ایس سانحہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، عوام شدید صدمہ میں تھی، عوام دہشتگردی کیخلاف جنگ میں فوج کے پشت پر کھڑی تھی۔وزیراعظم عمران خان نے دوران سماعت کہا کہ میں قانون کی حکمرانی پر  یقین رکھتا ہوں۔وزیراعظم نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے، آپ حکم کریں ہم ایکشن لیں گے۔

اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ سے مزید وقت کی استدعا کی جس پر عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا منظور کر لی۔عدالت نے 20 اکتوبر کے حکم نامے پر عملدرآمد کی ہدایت کی جس پر وزیراعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کو تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی،سپریم کورٹ نے 4 ہفتوں میں سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داروں کے تعین کا حکم دیتے ہوئے وزیراعظم سے اقدامات کی رپورٹ طلب کرلی، عدالت نے قراردیا کہ وفاقی حکومت ذمہ داران کے خلاف کاروائی کے عمل میں بچوں کے والدین کو شامل کرے۔عدالت نے سماعت چار ہفتے کیلئے ملتوی کر دی۔