اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے معاملہ پر دائر نظرثانی اپیلوں کی سماعت کے باعث 2روز کی کاز لسٹ منسوخ کردی۔ جبکہ بینچ نے10سال کی سزاپانے والے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اورسابق وزیر اعظم عمران خان کے بھانجے حسان خان نیازی کے والدسینئر صحافی حفیظ اللہ خان نیازی کی استدعا پر فوجی عدالتوں سے سزاپانے والے ملزمان کو کوٹ لکھپت جیل لاہور میں جیل مینوئل کے مطابق ملنے والی سہولتوں کے حوالہ سے پنجاب حکومت سے رپورٹ طلب کرلی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے دلائل جاری رکھے جبکہ بدھ کے روز بھی وہ اپنے دلائل جاری رکھیں گے جبکہ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ فوجی عدالتوں سے سزاپانے والوں کو جیل مینوئل کے مطابق حقوق ملیں گے، اٹارنی جنرل نے جیل مینوئل کے تحت حقوق دینے کی یقین دہانی کروائی تھی جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیںکہ مسلح افواج میں ڈسپلن کے قیام کے لئے فوجی عدالتوں کاقیام درست ہے کیا سویلینز کواس میں شامل کیا جاسکتا ہے؟ سادہ ساسوال ہے کہ کیا سویلینز کوقانون میں شامل کیا جاسکتا ہے کہ نہیں ، آئین کے آرٹیکل 8-3کے تحت بنیادی انسانی حقوق کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔
وزارت دفاع ایگزیکٹو کا ادارہ ہے، ایگزیکٹو کیخلاف اگر کوئی جرم ہو تو کیا وہ خود جج بن کر فیصلہ کر سکتا ہے؟ آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے، کیا ہم 26ویں آئینی ترمیم سے ہٹ سکتے ہیں کہ نہیں۔ تعزیزارت پاکستان کے ہوتے ہوئے یہ قانون خاص طور پر مسلح افواج کے لئے بنا، بینچ نے ساراقانون کالعدم قرارنہیں دیا بلکہ ترمیم کوکالعدم قراردیا ہے، آئین کوماننے کے ہم پابند ہیں، کیاقانون میں ترمیم ہوسکتی ہے کہ نہیں ہم نے وہ دیکھنا ہے۔ آئین زندہ دستاویز ہے اور عدالتی فیصلے بھی زندہ دستاویز ہیں، کیا پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعہ آئین کو تبدیل کرسکتی ہے۔
جبکہ جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں لکھا ہے کہ فوجی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 175کے خلاف نہیں۔اگر آرمی ایکٹ کے تحت کوئی شخص جرم کرے گاتواُس کاٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا۔ مارشل لاء یاایل ایف اوکے دنوں میں بنیادی حقوق معطل ہوجاتے ہیں۔ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اختیارات کو وسیع کرکے سویلین کا ٹرائل ہو رہا ہے۔ آپ اپنے دائر ہ اختیارسے باہرنکل رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیاآپ سویلینز کاٹرائل کرسکتے ہیں ؟ منگل کے روز سپریم کورٹ کے سینئر جج اور آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی ، جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 7رکنی لارجر بینچ نے سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر دومیں کیسز کی سماعت کاآغا کیا۔
0000فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف دائر 38درخواستوں میں سے ایک درخواست گزار کی جانب سے التواکی استدعا کی گئی۔ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آئینی بینچ آج صرف فوجی عدالتوں کا کیس سنے گا، ہم سماعت ملتوی نہیں کررہے، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد روسٹرم پر آئیں۔اس کے بعد خواجہ حارث نے روسٹرم پر آگئے اور دلائل کاآغاز کرتے ہوئے مئوقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قرار دیا کہ فوج کے ماتحت سویلینز کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل8-3پردوبارہ آجائیں، اس میں مسلح افواج کے اہلکاروں کے ڈسپلن اور ذمہ داریوں کی انجام دہی کاذکر ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ فوج کے نظام انصاف میں فوجی عدالتیں تسلیم شدہ فورم ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ موجودہ کیس میں متاثرہ فریق اور اپیل دائر کرنے والا کون ہے؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اپیل وزارت دفاع کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وزارت دفاع ایگزیکٹو کا ادارہ ہے، ایگزیکٹو کیخلاف اگر کوئی جرم ہو تو کیا وہ خود جج بن کر فیصلہ کر سکتا ہے؟ آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے، کیا ہم 26ویں آئینی ترمیم سے ہٹ سکتے ہیں کہ نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین واضح ہے کہ ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا، فوجی عدالتوں کے کیس میں یہ بنیادی آئینی سوال ہے، انسدادہشت گردی عدالتوں کااوریجنل دائرہ اختیار وموجود ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی اور فورم دستیاب نہ ہو تو ایگزیکٹو فیصلہ کر سکتا ہے،فوجی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 175سے باہر ہیں، 1953سے فوجی عدالتیں کام کررہی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کون فوجی عدالتیں قائم کرے گا۔اس پر خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ حکومت قائم کرے گی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کون پریزائڈنگ افسران ہوں گے ان کے کیااختیارات ہوں گے۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں لکھا ہے کہ فوجی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 175کے خلاف نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہ کہہ دیا کہ عدالت بن سکتی ہے لیکن محدودکردیا کہ کس حد تک ہوگی۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ فوجی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 175کے خلاف نہیں یہ اکثریتی فیصلہ ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا فوج کے ممبران کو سویلینز کے برابر لاسکتے ہیں، قانون کس حد تک بناسکتے ہیں، ڈسپلن اور ذمہ داریوں کی انجام دہی تک قانون بناسکتے ہیں، ہم کیوں مسلح افواج کے اہلکاروں کو آئینی حقوق سے محروم کریں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا آئین کے آرٹیکل 8کے تحت فوجداری جرم کے حوالہ سے بھی قانون سازی کرسکتے ہیں یاصرف یاصرف ذمہ داریوں کی انجام دہی کے ھوالہ سے ہی قانون سازی کرسکتے ہیں، وکیل کہہ رہے ہیں جو بھی شہری مسلح افواج کارکن بن جائے وہ آئین کے چیپٹر 2میں دیئے گئے بنادی حقوق سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ میں دکھائوں گا کہ 5رکنی بینچ کے فیصلہ میں کیا خرابی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا قانون کوکسی بھی طبقہ تک پھیلاسکتے ہیں، اگر کوئی شخص کسی چیک پوسٹ پر ڈیوٹی انجام دینے والے اہلکار کی ڈیوٹی خراب کرتا ہے توکیااُس کاٹرائل فوجی عدالت میں چلے گا، کیا قانون اتناپھیل جائے گا کہ کسی کوبھی اس میں شامل کرلیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ مسلح افواج میں ڈسپلن کے قیام کے لئے فوجی عدالتوں کاقیام درست ہے کیا سویلینز کواس میں شامل کیا جاسکتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر آرمی ایکٹ کے تحت کوئی شخص جرم کرے گاتواُس کاٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ اپنے دائر ہ اختیارسے باہرنکل رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیاآپ سویلینز کاٹرائل کرسکتے ہیں ؟خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ 2-1,d-1کو کالعدم قراردیاجاسکتا تھا کہ نہیں، فوجی عدالتوں میں مخصوص کیسز جاتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ تعزیزارت پاکستان کے ہوتے ہوئے یہ قانون خاص طور پر مسلح افواج کے لئے بنا، بینچ نے ساراقانون کالعدم قرارنہیں دیا بلکہ ترمیم کوکالعدم قراردیا ہے، آئین کوماننے کے ہم پابند ہیں، کیاقانون میں ترمیم ہوسکتی ہے کہ نہیں ہم نے وہ دیکھنا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کو صرف مسلح افواج کے ممبران تک محدود کیا گیا ہے، آئین کا آرٹیکل 8(3) کے تحت افواج کے ڈسپلن اور کارکردگی کے حوالے سے ہے، کیا فوجداری معاملے کو آرٹیکل8(3) میں شامل کیا جا سکتا ہے؟ آئین میں سویلنز کا نہیں پاکستان کے شہریوں کا ذکر ہے۔خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان کے لوگ بھی اتنے ہی شہری ہیں جتنے دوسرے، ملٹری کورٹس ٹرائل پر آرٹیکل 175 کا اطلاق نہیں ہوتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کو فوج کے ڈسپلن میں لانے کیلئے لایا گیا۔اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اگر کوئی عام شہری مسلح افواج میں شامل ہو جائے تو وہ بنیادی حقوق کے تحت عام عدالتوں میں کسی معاملے کو چیلنج نہیں کر سکتا۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں 14 سال تک مارشل لا ء بھی نافذ رہا۔اس پر وکیل وزارت دفاع کاکہنا تھا کہ جب مسلح افواج کے فرائض کی انجام دہی میں کوئی شہری مداخلت کرے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اس کیس کے دو حصے ہیں، ایک حصہ آرمی ایکٹ کی شقوں کو کالعدم قرار دینے سے متعلق ہے، دوسرا حصہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق ہے۔جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل کا سوال بہت اہم ہے، کسی چیک پوسٹ پر سویلین کا تنازع ہو جائے تو ٹرائل کہاں ہوگا۔ا س پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کا نفاز کن جرائم پر ہوگا اس کا جواب آرمی ایکٹ میں موجود ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آئین زندہ دستاویز ہے اور عدالتی فیصلے بھی زندہ دستاویز ہیں، کیا پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعہ آئین کو تبدیل کرسکتی ہے۔اس دوران پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے روسٹرم پرآکر کہا کہ ہمیں بھی 5رکنی بینچ کے فیصلے کے آخری حصہ پر اعتراض ہے تاہم مجموعی طور پر فیصلے سے اتفاق ہے، آرٹیکل 175-3کے حوالہ سے اتفاق نہیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کااطلاق مخصوص افراد نہیں بلکہ علاقہ پرہوتا ہے۔
اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جوبھی آتا ہے ساراجھگڑا یہ ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ جو بھی ذمہ داریوں کی انجام دہی یا ڈسپلن میں مداخلت کریں گے ان پرقانون لاگو ہوگا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر کوئی درخواست گزار ذاتی حیثیت میں پیش ہوکردلائل دیتا ہے توکیااُس پر بھی وکیلوں والا ضابطہ اخلاق لاگو ہوگا، سمجھنے کے لئے کچھ نہ کچھ توکرنا ہوگا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ اگر قانون میں ہے تولاگوہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ مئوکل کوکیسے شامل کریں گے اُس کی درخواست پر ہی تو وکیل کے خلاف بارکونسل کاروائی کرتی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہاں پر عدالتوں کاتنازعہ ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ مجھے قانون دکھایا گیا ہے کہ جوشخص ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوگااُس پربھی وکلاء کاضابطہ اخلاق لاگو ہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ مارشل لاء یاایل ایف اوکے دنوں میں بنیادی حقوق معطل ہوجاتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سادہ ساسوال ہے کہ کیا سویلینز کوقانون میں شامل کیا جاسکتا ہے کہ نہیں، آئین کے آرٹیکل 8-3کے تحت بنیادی انسانی حقوق کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ اس دوران آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سولین کے ٹرائل کے کیس کی سماعت آج (بدھ) تک ملتوی کردی۔اس دوران مدعاعلیہان کے وکیل فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ میں کراچی سے آیا ہوں آج فوجی عدالتوں کے علاوہ دیگر کیسز کی کاز لسٹ منسوخ کردی گئی کل کے کیسز کاکیا ہوگا۔اس پر جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ کل بھی صرف ملٹری کورٹس کیس ہی سنیں گے، کل آئینی بینچ ملٹری کورٹس کیس کے علاوہ کوئی کیس نہیں سنے گا، کل ملٹری کورٹس کیس کے علاوہ باقی آئینی بینچ کی کاز لسٹ منسوخ کردی گئی ہے، ہم نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے کیسز کی سماعت کے مقدمہ کی سماعت شروع کرلی ہے اس کوپہلے ختم کریں گے۔ سماعت کے اختتام کے وقت ملٹری کورٹ سے سزا پانے والے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اورسابق وزیر اعظم عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کے والدسینئر صحافی اورتجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی روسٹرم پر آکر بات کرنے کی اجاز ت چاہی۔
اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاانہیں مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ سیاسی باتیں شروع کردیتے ہیں۔حفیظ اللہ خان نیازی کاکہنا تھا کہ عدالت نے شفقت فرمائی جس کے بعد ملٹری کورٹس نے فیصلے سنائے، کوٹ لکھپت جیل لاہور میں سزا پانے والے 22 ملزمان کوعام قیدیوں کے ساتھ نہیں رکھا گیا بلکہ انہیں انتہائی ہائی سیکیورٹی زون میں رکھا گیا ہے، جیل مینول کے تحت ان ملزمان کو حقوق نہیں مل رہے اوراُن کووہی حقوق دیئے گئے ہیں جو انہیں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران دیئے گئے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ فوجی عدالتوں سے سزاپانے والوں کو جیل مینوئل کے مطابق حقوق ملیں گے، اٹارنی جنرل نے جیل مینوئل کے تحت حقوق دینے کی یقین دہانی کروائی تھی ۔ عدالت نے استفسارکیا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے کون سرکاری وکیل کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔ اس ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ثناء اللہ زاہد پیش روسٹرم پرآگئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ یہ انڈر ٹرائل ملزمان تو نہیں ہیں، ملزمان کو سزا ہو چکی ہے، جیل مینول کے تحت کیوں حقوق نہیں مل رہے۔
اس کے بعد سپریم کورٹ نے حکومت پنجاب سے جیل مینول کے تحت حقوق نہ ملنے پر جواب طلب کرلیا۔حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ 2 سال یا 10 سال سزائیں تو سنا دی گئی ہیں لیکن تفصیلی وجوہات نہیں دی گئیں،صرف لکھا ہے گنہگار۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ کیا تفصیلی وجوہات نہیں بتائیں گئیں؟اس دوران جسٹس محمد علی مظہرکا حفیظ اللہ نیازی سے مکالمہ کیا کہ اپنی باری پر اس بارے میں دلائل دیجیے گا۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ملزمان کوجیل میں ملنے والی سہولیات کے حوالہ سے ایڈووکیٹ جنرل پتا کرکے بتادیں گے یہ جیل مینوئل کے مطابق ہوں گی۔ حفیظ اللہ نیازی نے بات جاری رکھی تاہم اس دوران ججز کمرہ عدالت سے اٹھ کرروانہ ہوگئے۔