گزشتہ دوماہ کے عرصے میں بھارتی ریاست کرناٹکا میں مسلمانوں کے خلاف مذہبی عدم برداشت کے کم از کم 5 واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 28 دسمبر 2021 کو بھارتی ریاست کرناٹکا کے شہر بنگلورو کے ایک سرکاری کالج میں اسکارف یا حجاب لینے والی طالبات کے کلاس میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی اور کالج میں حاضر ہونے کے باوجود ان طالبات کو مستقل غیر حاضر دکھایا جاتا رہا۔ اسی طرح کرناٹک کے ضلع اڈوپی میں ایک سرکاری اسکول میں حجاب پہن کر کلاس روم میں داخل ہونے پر پابندی کے بعد دیگر اسکولوں نے بھی آر ایس ایس کے حامیوں کے خوف سے حجاب پر پابندی لگا دی ۔ جبکہ 28 جنوری 2022 کو مسلمان طلبہ کو اسکول کے حدود میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کی اجازت دینے پر ہیڈ مسٹریس کو برطرف کردیا گیا۔ ریاست کرناٹک کے وزیر تعلیم نگیش بی سی کا کہنا ہے کہ کالج میں اسکارف پہننے جیسے اقدامات پر پابندی ہونی چاہیے۔
8 فروری 2022 کو سامنے آنے والی ایک مختصر ویڈیو میں بھارتی ریاست کرناٹک میں مہاتما گاندھی میموریل کالج کے پار کنگ ایریا میں ہندوتوا کے حامیوں کے ہجوم نے جے شری رام کی چیخ و پکار کرتے ہوئے با حجاب مسلم طالبہ مسکان خان گھیرنے کی کوشش کی جس پر مسکان خان نے نعرہ تکبیر (اللہ اکبر) کی صدا بلند کی ۔ بعد ازاں طالبہ نے بھارتی ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ جب سے میں نے (یہاں) پڑھنا شروع کیا ہے، میں نے ہمیشہ برقعہ اور حجاب پہنا ہے، جب میں کلاس میں داخل ہوتی ہوں تو برقعہ اتار دیتی ہوں۔ اس پر پرنسپل نے کبھی اعتراض نہیں کیا اور 8 فروری 2022 کو ان کا گھیرا کرنے والا ہجوم بیرونی عناصر پر مشتمل تھا جو اس کالج کے طلبہ نہیں ہیں۔ دوسری جانب ریاست کرناٹک میں آر ایس ایس کی طرف سے حجاب پر پابندی کی تحریک کے زور پکڑنے کے بعد 9فروری 2022 کو ریاستی انتظامیہ نے ایک ہفتے کیلئے تمام سکولز اور کالجز بند کردیئے گئے۔
مسکان خان کو حجاب پہننے پر ہراساں کیے جانے پر بھارتی میڈیا اور فلم انڈسٹری کی معروف شخصیات، دانشوروں اور سیاست دانوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور ملک کو تنزلی کی جانب لے جانے پر مودی حکومت کی مذمت کی۔ اسی طرح بھارتی نیوز اینکر راجدیپ سردیسائی کا کہنا ہے کہ انتہاپسندی کے قوم پر یہی اثرات ہوتے ہیں۔ ہمیں نوجوانوں کے لیے نوکریوں کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے لیکن ہم ان کے لباس پر توجہ دیتے ہیں! یہ شرمناک ہے۔ بھارتی مصنف ویبھو وشال نے افسوس کا اظہار کیا کہ ملک افسوسناک حالت میں ڈھل چکا ہے۔
معروف بھارتی انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ کے اساتذہ اور طلبا نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک کھلے خط میں کہا ہے کہ ان کی خاموشی نفرت اور خطرات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ملک کے اتحاد اور سالمیت کے لیے خطرے کا باعث بنے گی۔
ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کی عالمی رپورٹ 2022 کے مطابق بھارتی حکومت نے حالیہ برسوں میں ایسے قوانین اور پالیسیوں کو اپنایا ہے جو مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک پر مبنی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بی جے پی رہنماں کی طرف سے مسلمانوں کی توہین اور ان پر تشدد کے خلاف کارروائی کرنے میں پولیس کی ناکامی نے دیگر ہندو قوم پرست گروہوں کی جانب سے مسلمانوں پر حملے کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
جماعتِ اسلامی ہند کا مقف: کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات پر حجاب کی پابندیوں پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند نے کہا ہے کہ بھارتی آئین کے مطابق لباس ہر شہری کا آئینی اور بنیادی حق ہے اور اس پر کوئی تنازعہ نہیں ہونا چاہیے ۔ حجاب کا معاملہ آئین اور مذہبی آزادی کا مسئلہ ہے ۔ ہندوستان کے آئین کے تحت لوگوں کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے کی آزادی ہے ۔ مذہب کے اقدار اور رسومات پر کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی ۔ جماعت اسلامی ہند نے قومی کمیشن برائے خواتین (NCW) اور قومی انسانی حقوق کمیشن (NHRC) سے نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسکول اور کالج کے حکام پر زور دیا کہ وہ ایسے لوگوں کے سامنے نہ جھکیں جو معاشرے میں تقسیم اور نفرت پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر مسلم طالبات پر سکول میں داخلے کی پابندی ہٹائی نہیں گئی تو جماعت اسلامی ہند قانونی چارہ جوئی کرے گی ۔
9 فروری 2021 کو پاکستان نے بھارتی ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے انہیں بھارتی ریاست کرناٹک میں مسلمان طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کے انتہائی قابل مذمت اقدام پر حکومت پاکستان کی شدید تشویش سے آگاہ کیا۔ علاوہ ازیں پاکستانی دفتر خارجہ نے بھارت میں کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ کرنے والوں کے حوالے سے بھی بی جے پی قیادت کی خاموشی اور ہندوتوا کے حامیوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے زور دیا کہ وہ اپنی حکومت پر دبا ڈالیں کہ وہ بھارتی ریاستوں آسام، تریپورہ، گروگرام اور اتراکھنڈ میں مسلمانوں پر تشدد کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کرے اور دہلی فسادات کے متاثرین کو انصاف دلائے۔ دفتر خارجہ نے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم سمیت عالمی برادری بالخصوص انسانی حقوق کے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت میں تشویشناک حد تک بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کا نوٹس لیں اور ملک میں اقلیتوں کے انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے بھارتی حکام پر دبا ڈالیں۔
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مذہبی عدم برداشت میں اضافے سے واضح ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی ) کے بر سر اقتدار آنے کے بعد دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوری ریاست بھارت میں خاص طور پر 14فیصد مسلمان آبادی کو متعصبانہ طرزِ عمل کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اس وقت آر ایس ایس کی جانب سے بھارت کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کیلئے مظاہرے جاری ہیں اور مسلمان لڑکیوں کو سکول اور کالجز میں حجاب کی بنا پر اندر داخل بھی نہیں ہونے دیا جارہا، بھارت کی موجودہ صورت حال چیخ چیخ کر دو قومی نظریئے کو حقیقت ثابت کررہی ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں جو کبھی بھی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔
جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس عاملہ نے ایک قرارداد میں بھارت میں با حجاب مسلم طالبات کے خلاف نفرت انگیز اقدامات کی بھرپور مذمت کی اور بالخصوص کرناٹک میں حجاب پہننے والی طالبات کو ہراساں کرنے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے قائدین نے بھارت میں مسلمانوں کے تحفظ اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی بھارتی انصاف پسند شخصیات اور اداروں کو خراج تحسین پیش کیا اور مطالبہ کیا کہ عالمی اور بھارتی انسانی حقوق کے اداروں کو اس صورت حال میں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے اور مزید فعال ہونا چاہیے۔