پاکستان کے اوّلین عہد میں ایسے عظیم الشان کارنامے تاریخ کے صفحات پر ثبت ہوئے جن پر ہماری قوم ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ اُن میں قراردادِ مقاصد مرکزی حیثیت رکھتی ہے جو اِسلام اور جمہوریت کے جدید تصورات کا نہایت عمدہ اِمتزاج ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے پاکستان بنتے ہی یہ انقلابی نظریہ پیش کیا کہ جس طرح ایک فرد کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوتا ہے، اُسی طرح ایک مسلم ریاست کے لیے بھی اللّٰہ تعالیٰ کی حاکمیت کا اعلان کرنا ضروری ہے۔ سیکولر حلقے اِس عظیم تصور پر خاصے جزبز ہوئے کہ قائدِاعظم نے دستورساز اسمبلی کی 11؍اگست کی تقریر میں کہا تھا کہ ریاست کا شہریوں کے مذہبی عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ اُس کے برعکس قراردادِ مقاصد میں ریاست کا رشتہ مذہب کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔
قائدِاعظم کی تقریر اور قراردادِ مقاصد ایک ہی طرزِ فکر کے مظہر تھے، البتہ اُن کے واقعاتی ماحول میں خاصا فرق تھا۔ قائدِاعظم جب تقریر فرما رہے تھے، تو پورا ہندوستان فسادات سے لہو لہو تھا اور مذہبی اقلیتیں خوف سے لرزاں تھیں۔ ایسی فضا میں اِس عزم کا اظہار ایک فطری امر تھا کہ اقلیتیں محفوظ ہوں گی اور آزادی سے اپنی عبادت گاہوں میں جا سکیں گی۔ حالات میں کچھ قرار آیا، تو قائدِاعظم نے جنوری 1948 میں امریکی عوام سے ریڈیائی خطاب میں یہ حقیقت پوری وضاحت سے بیان کی کہ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست ہے جس میں ملاؤں کے بجائے اسلام کے آفاقی اصولوں کی حکمرانی ہو گی۔ یہی یقین دہانی قراردادِ مقاصد میں مستقل طور پر لکھ دی گئی اور رِیاست اور شہری کے مابین رشتے کی نوعیت بھی متعین کر دی گئی۔ اُس وقت مغرب اور مشرق میں ریاستیں بڑی طاقت ور تھیں، چنانچہ اُن حالات میں جلد سے جلد نوزائیدہ مملکت کے اختیارات کا فریم ورک طے کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا تھا۔
قیامِ پاکستان سے قبل سید ابوالاعلیٰ مودودی نے مسلمانانِ ہند کو متحدہ قومیت کے جال سے محفوظ رکھنے کے لیے دلائل کا ایک مضبوط حصار کھینچ دیا تھا اور اُن کے اندر مسلم لیگ میں شامل ہونے کا جذبہ اُبھارا تھا۔ اُنہوں نے آزادی ملتے ہی اسلامی دستور کی تدوین کا مطالبہ شروع کر دیا۔ اُس مطالبے کے بطن سے قراردادِ مقاصد کے عظیم تصور نے جنم لیا جس کی اصل غایت ریاست کو اِسلامی اور جمہوری حدود و قیود کا پابند کرنا تھی۔ وزیرِاعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے عوام کے مطالبے پر قراردادِ مقاصد دستورساز اسمبلی میں پورے اعتماد اَور اِحساسِ تفاخر کے ساتھ پیش کی۔ اُس کی تائید میں سردار عبدالرب نشتر کی تقریر نے ایک سماں باندھ دیا۔ ڈاکٹرعمرحیات ملک کی ژرف نگاہی اور مولانا ظفر احمد انصاری کی حکیمانہ کوششوں سے قراردادِ مقاصد ایوان میں بھاری اکثریت سے منظور ہوئی۔
یہ دستاویز اہلِ پاکستان کے لیے میگناکارٹا کا درجہ رکھتی ہے جس میں درج ہے کہ پوری کائنات کا حاکمِ مطلق اللّٰہ تعالیٰ ہے جس نے اہلِ پاکستان کو اَپنے خلیفہ کی حیثیت میں اقتدار اَیک مقدس امانت کے طور پر سونپا ہے۔ فقط عوام کے نمائندے اِس اقتدار کو بروئےکار لانے کے حق دار ہوں گے۔ قراردادِ مقاصد میں تمام بنیادی آزادیوں کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ ہر شہری کوتنظیم بنانے، اپنی پسند کا پیشہ اپنانے، اپنے خیالات کی نشر و اشاعت اور اَپنے عقیدے کے پرچار کی پوری آزادی حاصل ہوئی، قانون کی نظر میں ہر شہری برابر ہے اور حکومت اپنا کاروبار آئین اور قانون کے مطابق چلانے کی پابند ہے۔ اقلیتوں کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا ہے کہ وہ اَپنی عبادت گاہوں میں بلاخوف و خطر جا سکیں گی اور اَپنی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے میں پوری طرح آزاد ہوں گی۔ اِس پورے ارتقائی عمل میں سب سے زیادہ اِنقلابی عنصر یہ ہے کہ قراردادِ مقاصد میں دوٹوک الفاظ میں اعلان ہوا ہے کہ اقتدار کے حق دار صرف عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔ اِس قطعیت نے ہر نوع کی آمریت کی جڑ کاٹ دی ہے اور رِیاست کے اختیارات پر اِس قدر قدغن لگا دی ہے کہ وہ معمول کے حالات میں شتر بےمہار نہیں ہو سکتی۔
اپریل 1972 میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ماہنامہ ’اردو ڈائجسٹ‘، ہفت روزہ ’زندگی‘ اور ہفت روزہ ’پنچ‘ کے ایڈیٹر اور پبلشر گرفتار کر لیے۔ اُن میں میرے علاوہ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی (مرحوم)، عزیزی مجیب الرحمٰن شامی، جناب حسین نقی اور جناب مظفر قادر (مرحوم) شامل تھے۔ فوجی عدالت نے ہمیں دو دو سال کی سزا سنا ئی جسے ہم نے عدالت میں تسلیم نہیں کیا اور مارشل لا کے خلاف نعرے لگائے ۔ ہم نے قراردادِ مقاصد کی بنیاد پر فوجی اقتدار کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ عدالتِ عالیہ نے ہماری رِٹ منظور کرتے ہوئے رہائی کے احکام صادر کر دیے۔ بعدازاں اپیل میں سپریم کورٹ نے چیف جسٹس حمود الرحمٰن کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ اِس نکتے پر کالعدم قرار دَے دیا کہ قراردادِ مقاصد آئین کا فقط دیباچہ ہے جسے قانون کی حیثیت حاصل نہیں۔
جنرل ضیاء الحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے قراردادِ مقاصد کو آئین کا حصہ بنا دیا، چنانچہ اب ہر شہری اقتدار پر ناجائز قبضے کے خلاف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کر سکتا ہے۔ اِس تاریخی تناظر میں اہلِ پاکستان یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ قراردادِ مقاصد کی تیاری، اُس کے دفاع اور اُس کی منظوری میں جن جن افراد نے حصہ لیا، وہ ہمارے بہت بڑے محسن ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے پاکستان کے اوّلین دور ہی میں قوم کو متحد رکھنے اور مملکت کو اَپنی حدود کا پابند بنانے میں دستور کی اہمیت کا جو شعور بیدار کیا تھا، وہی شعور آج پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے جملہ اہم حلقوں میں رچ بس گیا ہے۔ اب پاکستان کے طول و عرض میں دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی جو صدا گونج رہی ہے، وہ سیّد صاحب کی فراست، دوراندیشی اور ثابت قدمی کا ثمر ہے۔ بدقسمتی سے مغرب زدہ طبقے قراردادِ مقاصد کے زریں اصولوں پر معاشرے کی تعمیر میں قدم قدم پر رخنے ڈالتے رہے، لیکن اُس کی منظوری ہماری تاریخ کا ایک انتہائی حیات آفریں کارنامہ ہے جو قوم کو نصب العین تک پہنچنے کے لیے توانائی اور سرشاری عطا کرتا رہے گا۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ جنگ