کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
مخدوم خلیق الزماں بھی دنیا سے پردہ کرگئے۔ یہ فیس بک چراغ بجھنے اور اندھیرا ہونے کی اطلاعات بہت دیتی ہے۔ کسی نئے دیپ کے جلنے کی۔ روشنی ہونے کا نہیں بتاتی۔ نئے دیئے جل بھی کہاں رہے ہیں۔ اُجالا بھی کہاں ہو رہا ہے؟
جمہوریت اب بھی کہیں نہیں ہے۔ مگر اب بحالی جمہوریت کے لیے بھی کوئی تحریک نہیں چل رہی۔ مخدوم خلیق الزماں ایک جوان رعنا تھے۔ مریدوں اور عقیدتمندوں کے احترام اور دُعاؤں کے عادی۔ مگر جب آمریت کے خلاف مزاحمت کیلئے نکلے تو سب عیش و عشرت بھول گئے۔ ایک عام کارکن کی طرح سب سختیاں برداشت کیں۔ ہالہ میں سیاسی جدو جہد کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے۔ ایم آر ڈی میں گرفتاریاں دینے کی پیشکش پورے پنجاب۔ پورے سندھ۔ پورے سرحد۔ پورے بلوچستان میں دم توڑ گئی۔ لیکن ہالہ میں آخری منگل تک چلتی رہی۔خیرپور جیل میں انہوں نے صحافیوں کے قائد منہاج برنا کا جیسے خیال رکھا۔ وہ ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔ نفیس صدیقی بھی ان دنوں وہیں تھے۔ بہت پُر جوش مقرر۔ صاحبِ مطالعہ۔ خود بھی شاعر۔ اور شاعروں کی خیال داری میں آگے آگے۔ ہماری نیاز مندی تو مخدوم زماں محمد طالب المولیٰ سے بھی رہی۔ مشفق۔ مہرباں اور صاحب بصیرت شخصیت ۔ مخدوم امین فہیم سے بھی طویل رفاقت رہی۔ وہ بھی ایک لمبی جدو جہد کے بعد اُداس رخصت ہوئے۔ مخدوم امین فہیم شبنم تھے تو مخدوم خلیق الزماں شعلہ۔ سندھ کے نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن مخدوم خاندان میں ایک سے ایک آفتاب۔ مخدوم رفیق الزماں بھی بہت سخن فہم۔ اب ہالہ کی سربراہی مخدوم جمیل الزماں کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں استقامت دے۔
کووڈ کی زد میں آنے والے اکیسویں صدی کے یہ برس غم پر غم دے رہے ہیں۔ اچانک کسی کے دنیا سے اٹھنے کی خبر آجاتی ہے۔ نرم دم گفتگو۔ ہمیشہ پُر امید اور خوش لباس فرہاد زیدی بھی چلے گئے۔ وہ بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں صحافت کے افق پر بڑی آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوئے۔ مجھے کبھی ان کے ساتھ ایک ہی ادارے میں کام کرنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ لیکن جنرل ضیا کے مارشل لا میں کئی دوپہریں۔ کئی شامیں ایک ساتھ جدو جہد کرنے کا موقع ملا۔ ان کی شہرۂ آفاق نظم۔ شریف آدمی انہی موسموں کی یادگار ہے۔ ہم نے ہفت روزہ ’معیار‘ میں ان کی جیل کی ڈائریاں بھی شائع کیں۔ 4اپریل 1979 کی خونیں شام وہ بار بار کہہ رہے تھے آنکھوں میں نمی کے ساتھ۔ کسی کو بھی خیال نہ آیا۔ جنرلوں سے لے کر جیل سپرنٹنڈنٹ تک۔ کوئی تو سوچتا ہم کس کو تختۂ دار پر لے جارہے ہیں۔ آمریت کے خلاف اس جدو جہد میں وہ بالکل نوجوانوں کی طرح پیش پیش تھے۔ آخری ملاقات ان سے صدقو ایونیو میں ہوئی۔ وہ پھر اپنے صاحبزادے کے ہاں آخری دن گزارنے چلے گئے۔ وہ صحافیوں کی اس نسل میں سے تھے جو ادب سے صحافت میں آئے۔ جن کی اُردو بے عیب۔ تحریر میں تاثیر۔ سرخیوں میں جامعیت۔ میری ان سے غائبانہ ملاقات 1960 کے ’نقوش‘ کے کسی شُمارے میں ہوئی۔ ایک خوبصورت نوجوان کی تصویر۔ ایک حسین خیالات والی غزل۔ ان کی بیگم مسرت جبیں۔ اُردو کی اولیں ایڈیٹروں میں سے۔’جنگ‘ میں بھی ان کے کالم مقبول خاص و عام رہے۔ بہت شگفتہ تحریر۔ میری ان کے بیٹوں سے درخواست ہوگی کہ زیدی صاحب کی شاعری اور کالموں کے مجموعے الگ الگ چھپوائیں۔
ان ہی دنوں میں لاہور سے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے فعال متحرک سیکرٹری جنرل۔ شاہد رشید کی رحلت کی بھی خبر آئی۔ بہت درد مند پاکستانی۔ قوم کو آگے بڑھتا دیکھنے کے تمنّائی۔ فون پر رابطہ تھا۔ ہم نے ان ہی کالموں میں دو سال پہلے دعوت دی کہ ہمیں 2022 میںپاکستان کی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی منانی چاہئے۔ اور ان شہدا کو مہاجرین کو انصار کو یاد کریں جو 1947 کے پُرآشوب دنوں میں قربانیاں دے رہے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے رابطہ کیا۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سالانہ اجلاس میں باقاعدہ قرارداد منظور کی اور 18 صفحات پر مشتمل دو سالہ پروگرام ترتیب دیا۔ 14اگست 2022 کو شاہد رشید بہت یاد آئیں گے۔
رفتگاں آج بہت یاد آرہے ہیں۔ کراچی کی محفلوں کی جان یاور مہدی ریڈیو پاکستان سے کتنے نوجوانوں کی تربیت کی۔ پھر آرٹس کونسل کے ذریعے فن اور ادب کی آبیاری۔ آخری برسوں میں علالت کے باوجود اہلِ قلم و دانش کی پذیرائی کی محفلیں۔ کسی نام و نمود کی خواہش نہیں۔ بیرون ملک سے نیلوفر عباسی آتیں یا کوئی اور صاحبِ حرف۔ تو ان کا فون آتا کہ آپ کو آنا ہے۔ بہت خوش ہوتے تھے دوسروں کی خدمت کرکے۔سہ ماہی ’لوح‘ کے مدیر۔ اولڈ راوین ممتاز شیخ بھی اچانک چلے گئے۔ بہت اُداس کرگئے۔ اکیلے ایک انجمن تھے۔ لوح کے ناول نمبر۔ افسانہ نمبر ایسے شائع کیے کہ اُردو کی ادبی دنیا میں سر آسماں چاند بن گئے۔
بلوچستان کے نامور فرزند۔ طالب علمی سے ہی پاکستان کے عوام کے لیے مسلسل تگ و دو کرنے والے۔ جیلوں میں جوانی کے چمکتے دن گزارنے والے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کو پنجاب میں ایک ٹریفک حادثہ اپنے چاہنے والوں سے جدا کرگیا۔ پاکستان کا آئین بنانے والی قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ اس وقت بالکل جوان۔ شعلہ بیاں۔ بلوچستان ہی نہیں پورے پاکستان کے محنت کشوں۔ طالب علموں کے ترجمان۔ آخری ملاقات کوئٹہ پریس کلب میں ہوئی۔ ملک کی بہتری اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے اپنے نکات بھی عطا کیے۔ اب ایسے صاحبِ نظر کہاں ہیں۔
آخر میں افسانہ نگار۔ متحرک شخصیت ہما بیگ کے رفیق حیات مرزا نعیم بیگ کی جدائی۔ کووڈ کی پہلی عید الفطر میں طیارے کے حادثے میں نوجوان بیٹے کے انتقال نے ایسا صدمہ دیا کہ وہ بستر سے لگ گئے۔ ہما بیگ سے اظہار غم بھی اور اللہ سے دُعا کہ وہ ان صدموں کو برداشت کرنے کی ہمت دے۔
آخری سطور قلمبند کرتے کرتے اپنے ایک رفیق کار۔ سینئر صحافی۔ ایڈیٹر۔ مصنّف اقبال احمد صدیقی کے بھی شاملِ رفتگاں ہونے کی اطلاع ملی۔ ان کے صاحبزادے پرویز اقبال صدیقی سے بات ہوئی۔ 85سال عمر ہونے کے باوجود وہ لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے تھے۔ ان دنوں میرا رابطہ ان سے فون پر تھا۔ ’اخبار جہاں‘ کے مدیر رہے۔ مختلف اخبارات میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ تحریر میں بہت جاذبیت تھی۔ مدینہ منورہ پر ان کی تصنیف بہت مقبول ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان کے بیٹوں بیٹیوں کو صبر جمیل عطا کرے۔ مرحوم کے درجات بلند کرے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ