سری نگر: مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلی عمر عبداللہ اورمحبوبہ مفتی نے کرناٹک ہائی کورٹ کی جانب سے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی تمام درخواستوں کو خارج کیے جانے کے فیصلے کو ‘مایوس کن’ قرار دیا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے اپنے بیان میں کہا کہ “کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے سے بہت مایوسی ہوئی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ آپ حجاب کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ یہ لباس کسی چیز کے بارے میں نہیں ہے، یہ عورت کے حق کے بارے میں ہے کہ وہ اس بات کا انتخاب کرے کہ وہ کس طرح کا لباس پہننا چاہتی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے بنیادی حق کو نظر انداز کر کے ٹھیک نہیں کیا۔
سابق وزیر اعلی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ “کرناٹک ہائی کورٹ کا حجاب پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ انتہائی مایوس کن ہے۔ ایک طرف ہم خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہم انہیں بنیادی انتخابی حق سے محروم رکھ رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ “یہ صرف مذہب کے بارے میں ہی نہیں ہے بلکہ انتخاب کی آزادی کا معاملہ بھی ہے۔
یاد رہے کرناٹک ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی تمام درخواستوں کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری نہیں ہے۔
آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے بھارتی ریاست کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی برقرار رکھنے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ کرناٹک ہائیکورٹ کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔
اسدالدین اویسی نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے سے اختلاف کرنا میرا حق ہے۔انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ درخواست گزار سپریم کورٹ میں اپیل کریں گے، امید ہے آل انڈیا مجلس پرسنل لا بورڈ اور مذہبی تنظیمیں بھی اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گی۔
خیال رہے کہ کرناٹک ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ریتو راج اوستھی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حجاب پہننا ایک ضروری مذہبی عمل نہیں ہے۔
کرناٹک ہائیکورٹ نے آج تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ حجاب پہننا اسلامی عقیدے کا لازمی مذہبی عمل نہیں ہے۔