میرے بابا تو نے جو ظلم کیا
میں رب کو جا کے بتاؤں گی
تو نے جو مجھ کو درد دیا
میں رب کو جا کے بتاؤں گی
تو نے یہ کیسا ظلم کمایا ہے
تجھے مجھ پہ ترس نہ آیا ہے
تیرے گھر کا تھی میں اک دیا
میں رب کو جا کے بتاؤں گی
میں رب کی تجھ پہ رحمت تھی
تو سمجھا کہ میں زحمت تھی
تو نے زحمت کیوں مجھ کو سمجھ لیا
میں رب کو جا کے بتاؤں گی
کیوں رب سے تو بے باک بنا
مجھے کرنے کو قتل، سفاک بنا
میں نے موت کو سینے لگا ہی لیا
میں رب کو جا کے بتاؤں گی
باپ سراپا محبت ہوتا ہے۔ اگر شفقت، محبت، خلوص، مان اور قربانی کی مجسم اشکال ہوتیں تو یقینا وہ باپ کی شکل میں ہوتیں ۔ یہ وہ عظیم ہستی ہے جو اپنی زندگی جوانی، مال، دولت، آرام و سکون سب کچھ اپنی اولاد پہ قربان کر دیتی ہے۔ میں نے باپ کے روپ میں صرف شفقت، محبت اور خلوص کو ہی دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سانحہ میانوالی جیسے دلخراش واقعے کو تسلیم کرنا میرے لئے بے حد مشکل ہے۔ یقین نہیں آ رہا کہ ایک باپ اپنی نومولود بیٹی کو محض اس لئے نہایت سفاکی سے قتل کر سکتا ہے کہ اسے بیٹی نہیں بیٹا چاہیے تھا۔
شاہ زیب کی شادی دو سال قبل اس کی رشتہ دار مشعل سے ہوئی۔ گذشتہ دنوں ان کے ہاں ان کی پہلی اولاد بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ ماں نے ننھی پری کا نام “جنت فاطمہ” رکھا۔ “جنت فاطمہ” اپنے نام کی طرح بے حد معصوم اور خوبصورت تھی، جسے دیکھ کر منہ سے بے اختیار ماشاءاللہ نکلتا۔ مگر شاہ زیب جیسے بد نصیب انسان نے اللہ رب العزت کی دی ہوئی اس رحمت کو گلے لگانے کے بجائے اسے یہ کہہ کر دھتکار دیا کہ مجھے بیٹی نہیں بیٹا چاہیے تھا۔ بیٹی کی پیدائش پر وہ اتنا دلبرداشتہ ہوا کہ اس نے نہایت سفاکی سے سات دن کی بچی کو پہلے زمین پر پٹخ کر مارا اور پھر پستول سے پانچ گولیاں بچی کو مار دیں۔ ماں یہ منظر دیکھ کر چلاتی رہی اور وہ ظالم شخص گھر سے فرار ہو گیا۔
ایک باپ ایسا کر سکتا ہے یہ ماننے کو دل کسی طرح بھی راضی نہیں ہو رہا۔ مگر اس تلخ حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ نجانے اس لمحے قیامت کیوں نہ قائم ہوئی؟ جس زمین پر معصوم بچی کو پٹخا گیا وہ زمین کیوں نہ پھٹی؟ اس زمین نے ہم سب کو کیوں نہ نگل لیا؟ وہ رب جو اپنے بندوں سے ایک ماں سے ستر گنا زیادہ پیار کرتا ہے اس نے اپنی اس معصوم بندی کوسات دن کی معصوم بچی کو زمین پر پٹختا دیکھ کر اس زمین کے ٹکڑے ٹکڑے کیوں نہ کر ڈالے؟
ننھی “جنت فاطمہ” کے ماموں جو کہ ملزم شاہ زیب کے کزن اور سالا ہیں، انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ شاہ زیب ایک پڑھا لکھا اور سمجھ دار شخص ہے۔ ملزم شاہ زیب بہترین گریڈز کے ساتھ ایف ایس سی اور شعبہ میڈیکل میں کورس کرنے کے بعد میانوالی ہسپتال کی لیبارٹری میں کام کرتا ہے۔ وہ کسی قسم کی کوئی ڈرگز بھی نہیں لیتا تھا۔ مشعل سے شادی کے بعد وہ دونوں بہت خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ مشعل کے سسرال والوں کی جانب سے بھی ایسا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا کہ وہ بیٹی کے بجائے بیٹے کے خواہش مند تھے۔
ملزم شاہ زیب کے بھائی نے ایک بیان میں کہا کہ شاہ زیب اکثر ڈپریشن کا شکار رہتا تھا۔ اسی وجہ سے اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ جبکہ جنت کے ماموں نے اس بات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ اگر شاہ زیب کے ساتھ نفسیاتی طور پر کوئی مسئلہ ہوتا تو وہ اپنی بہن کا رشتہ اس سے ہرگز نہ کرتے۔
ملزم شاہ زیب تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ سائنس اور میڈیکل کی تعلیم سے بھی واقفیت رکھتا ہےاور بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ سائنس کی تعلیم اور شعبہ میڈیکل سے وابستہ ہونے کے باوجود اور ایک مسلمان ہونے کے باوجود وہ اولاد کی جنس کے تعین کے عمل سے واقفیت نہ رکھتا ہواور یہ نہ جانتا ہو کہ اولاد کی جنس کا تعین نہ تو والدین میں سے کسی کے کنٹرول میں ہے اور نہ ہی میڈیکل سائنس اس معاملے میں کوئی اختیار رکھتی ہے۔ جنس کے تعین کا پراسیس صرف اور صرف اللہ رب العزت کے ہی کنٹرول میں ہےاور اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ “آسمانوں اور زمین کی سلطنت اور بادشاہت صرف اللہ ہی کے لئے ہے۔ وہ جو چاہے پیدا کرتا ہےاور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہےاور جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹیاں اور بیٹے عطا کرتا ہےاور جس کو چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔ گو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے”۔
یہ بات واضح ہے کہ ملزم شاہ زیب نے جو بھی کیا وہ اس نے سائنسی معلومات اور اسلامی تعلیمات سے واقفیت رکھتے ہوئے اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے کیا۔ نہ تو وہ اس وقت کسی ڈرگ کے زیر اثر تھا اور نہ ہی وہ کسی نفسیاتی دباؤ کا شکار تھا۔
اس سانحے نے زمانہ قدیم کی وہ تلخ یادیں دوہرا دیں جب دین اسلام سے قبل لوگ اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیتے تھے۔ جب اسلام آیا تو اسلام نے بیٹیوں کو معاشرے میں وہ بلند مقام دیا کہ بیٹیوں کی پیدائش کے بعد ان کے ساتھ اچھا سلوک اوران کی بہترین تربیت کرنے پر جنت کی ضمانت اور جنت میں آقائے دو جہاں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ساتھی ہونے کی خوشخبری سنائی گئی۔ خود حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اپنی بیٹی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس تشریف لاتی تھیں تو اللہ کے محبوب ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہو جاتے تھےاوران کو بٹھانے کے لئے اپنی چادر بچھا دیتے تھےاورفرمایا کہ “جو میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ سے محبت رکھے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گااور جو میری فاطمہ رضی اللہ سے بغض رکھے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا”۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بیٹی کو اللہ پاک کی رحمت قرار دیا ہے۔
رحمت کے ان گنت اور لاتعداد دروازے ہیں مگر بیٹی جیسی رحمت کوئی نہیں ہے۔ ملزم شاہ زیب نے خدا کی اس عظیم رحمت کی نا قدری کی۔ جو رحمت اس کے لئے جنت کی ضمانت لے کر آئی تھی اسے انتہائی سفاکانہ طریقے سے جان سے ہی مار کر اس رحمت کو اپنے سے دور کر ڈالا۔ جنت فاطمہ اس کی پہلی اولاد تھی اور اس کی شادی کو ابھی محض دو برس ہی ہوئے تھے۔ کاش کہ وہ رب کی اس عظیم رحمت کو بخوشی قبول کر لیتا تو اللہ پاک اسے بیٹے جیسی نعمت سے بھی نواز ہی دیتا۔ مگر اس کی بے صبری اور جلد بازی نے اس کی دنیا اور آخرت دونوں کو تباہ کر دیا ہے۔
جس شخص نے اپنی نومولود ننھی کلی پر رحم نہیں کیا وہ شخص کسی رعایت اور رحم کا مستحق نہیں ہے۔ شاہ زیب کی گرفتاری کے بعد اب پورے سماج کی نظریں عدلیہ پر مرکوز ہیں۔ اور پوری قوم عدلیہ سے یہ توقع رکھتی ہے کہ جلد از جلد ٹرائل مکمل کر کے ملزم کو عبرتناک سزا دی جائے۔ تا کہ کم از کم “جنت” کی اس ماں کو کچھ سکون تو ملے جو بیٹی کے صدمے میں ہوش سے بیگانہ ہے۔ جو ہوش میں آتے ہی چلاتے ہوئے دوبارہ بے ہوش ہو جاتی ہے۔ ایسے ظالم شخص کو دنیا کے لئے ایک عبرت کی مثال بنایا جائے تا کہ آئندہ انسانی روپ میں چھپے کسی ظالم بھیڑیے میں اتنی ہمت نہ ہو کہ وہ ایسے گھناؤنے عمل کا مرتکب ہونے کا سوچ بھی سکے۔ کیونکہ جن پر نہ تو مذہبی تعلیمات اثر کریں، نہ ہی سائنسی علوم سے آگاہی ان کے لئے کوئی معنی رکھتی ہو اور نہ ہی جن کے لئے جذبات و احساسات کی کوئی قدر ہو انہی کے لئے قانون نے سزائیں تجویز کی ہیں۔
اے ظالم شخص ذرا ایک بات تو بتاو ، قیامت کے دن جب جنت روتی ہوئی رب کائنات کے سامنے آئے گی اور اپنے رب سے یہ پوچھے گی کہ اے رب کائنات مجھے میرا جرم تو بتا دو جس جرم کی پاداش میں مجھے دنیا میں جینے کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ تو اس وقت تم کیا جواب دو گے؟
ننھی جنت ہم سب نہ صرف تیرے لئے دکھی ہیں بلکہ تجھ سے شرمندہ بھی ہیں۔ تمہارا معصوم چہرہ آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اگرچہ تم رب کی امانت تھی او رب نے تمہیں اپنے پاس واپس بلا لیا مگر تمہارے ساتھ جو ہوا اس نے ہر آنکھ اشکبار کر دی۔ ہر دل افسردہ کر دیا۔ تم نے اپنے رب کو جا کر یہ بتایا تو ہو گا کہ اس زمین پہ تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوا۔ تمہیں کس بے دردی سے فرش پر پٹخا گیا اور پھر تمہارے ننھے جسم پہ گولیاں چلائی گئیں۔ تم نے رب سے بھی یہ شکوہ کیا ہو گا کہ آپ نے مجھے اس زمین پر کیوں بھیجا جس زمین پر مجھے اس طرح بے دردی سے مار دیا گیا؟ اور نجانے تمہارا رب کس قدر غیض و غضب میں ہو گا؟ اور اس کا یہ غضب کس طرح ہم سب پر اپنا عذاب مسلط کرے گا۔ اللہ رب العزت ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین
دنیا والو! اس حقیقت کو خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ:
زمانے بھر میں بڑھی گھر کی شان بیٹی سے
مہکتا رہتا ہے دل کا جہان بیٹی سے
ضروری نہیں کہ بیٹوں سے نام روشن ہو
میرے نبی کا چلا خاندان بیٹی سے