تقریبا مہینہ بھر بھارت کی ان پانچ ریاستوں میں انتخابات ہوتے رہے: مشرقی پنجاب، اتر پردیش، گوا، منی پور اور اتر کھنڈ۔ 10مارچ 2022 کی شام، چھ بجے ان کے نتائج سامنے آنے لگے تھے۔ چار ریاستوں (اتر پردیش، منی پور، اتر کھنڈ اور گوا) میں مقتدر جماعت، بی جے پی، بھاری مینڈیٹ کے ساتھ جیت چکی ہے۔
البتہ مشرقی پنجاب میں بی جے پی کو صرف دو سیٹیں ملی ہیں۔ مشرقی پنجاب میں “عام آدمی پارٹی”، غیر متوقع طور پر، فتح سے ہمکنار ہوئی ہے۔ “آپ” کے سربراہ نوجوان سیاستدان، اروند کجریوال، ہیں جو اِس وقت نئی دہلی ریاست کے وزیر اعلی ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کے سینے پر مسلسل مونگ دلتے ہوئے۔ مشرقی پنجاب میں “عام آدمی پارٹی” کی اس فتح نے بھارت بھر کے مکینوں کو ششدر کررکھا ہے۔
کانگریس کا تو پانچوں ریاستوں میں ہر جگہ تقریبا صفایا ہو گیا ہے۔ شکست خوردہ کانگریس پارٹی کے مرکزی رہنما، راہل گاندھی اور سونیا گاندھی، اس “تاریخ ساز” شکست پر دل شکستہ ضرور ہیں لیکن انھوں نے کھلے دل کے ساتھ مخالفین کی فتح اور اپنی ہار کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے: ” جمہوریت کا یہی حسن ہے کہ جب ووٹرز اپنا فیصلہ سنا دیں تو اسے دل سے تسلیم بھی کیا جائے۔ ” بھارتی جمہوریت کو شاید اِسی کارن “دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ” کہا جاتا ہے۔
ہم پاکستان میں بیٹھے ہووں کا خیال تھا کہ چونکہ بی جے پی اور آر ایس ایس نے بھارتی اقلیتوں پر پچھلے چند برسوں کے دوران بہت مظالم ڈھائے ہیں، اس لیے ان تازہ صوبائی انتخابات میں عوام بھاری اکثریت سے بی جے پی کے امیدواروں کو مسترد کر دیں گے۔ خصوصا اتر پردیش (جہاں بی جے پی کے کٹڑ ہندو پروہت ادیتیا ناتھ کی حکومت تھی) میں عوام بی جے پی کو پیچھے دھکیل دیں گے۔ 10مارچ کو نتائج سامنے آئے ہیں تو پتہ چلا کہ بھارتی عوام کی اکثریت نے اتر پردیش میں بھی بی جے پی اور ادیتیا ناتھ کو بھاری بھر کم اکثریت سے کامیاب و کامران کر ڈالا ہے۔
ایک بار پھر یہی ادیتیا ناتھ اترپردیش کے وزیر اعلی منتخب ہونے والے ہیں، وہی ادیتیا ناتھ جو بھارتی مسلمانوں کے بارے میں سخت زبان استعمال کرنے اور اسلام کی مخالفت میں لب کشائی کرتے ہوئے کوئی باک اور حجاب محسوس نہیں کرتے۔ ہمیں پاکستان میں بیٹھے ہوئے بی جے پی اور اس کی پالیسیاں لاکھ بری لگیں لیکن بھارتی عوام نے اِسی بی جے پی کی پالیسیوں، فیصلوں اور اقدامات کو پھر شرفِ قبولیت بخشا ہے۔
ان تازہ انتخابات میں نہ تو جھرلو پھرا ہے اور نہ ہی ووٹ گننے والا الیکٹرانک سسٹم بیٹھا ہے۔ بھارت میں کسی نے دھاندلی کا شور بھی نہیں مچایا ہے۔ انتخابات ہوں تو ایسے اور جمہوریت ہو تو ایسی۔ ہم تو وطنِ عزیز میں ایسی ووٹنگ اور ہارنے والوں کے ایسے کھلے اعترافات کو ترستے رہتے ہیں۔ یوں بی جے پی، آر ایس ایس اور نریندر مودی جی اپنی فتح پر نازاں کیوں نہ ہو؟
ان انتخابات میں سب سے بڑی اور ہمارے لیے قابلِ ذکر شکست نوجوت سنگھ سدھو کو ہوئی ہے۔ نوجوت سنگھ سدھو تین بار پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہو چکے تھے اور اب وہ مشرقی پنجاب میں کانگریس پارٹی کے صدر تھے۔ انھوں نے سابق وزیر اعلی مشرقی پنجاب، کیپٹن امریندر سنگھ، کے خلاف ساز باز کرکے انھیں کانگریس سے نکلوایا اور خود کانگریس پارٹی کے صدر بن گئے تھے۔ نوجوت سنگھ سدھو جی ہمارے وزیر اعظم، جناب عمران خان، کے بھی گہرے اور پرانے دوست ہیں۔
وہ خان صاحب کی حلفِ وفاداری کی تقریب میں خصوصی طور پر مدعو کیے گئے تھے۔ اس تقریب کے دوران ہمارے آرمی چیف، جنرل قمر باجوہ صاحب، سے ان کے مصافحے نے عالمی شہرت حاصل کی تھی۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی میڈیا میں اس مصافحے نے کئی مروڑ بھی ڈالے تھے۔ دربار صاحب کرتار پور کی راہداری کھلوانے کے لیے نوجوت سنگھ سدھو کی تمناوں کا بھی کچھ عمل دخل تھا۔ وہ کرتار پور راہداری کی تعمیر و تکمیل پر، وزیراعظم عمران خان کی دعوت پر، کرتار پور (ضلع نارووال، تحصیل شکر گڑھ) تشریف لائے تھے۔ اس شاندار تقریب میں نوجوت سنگھ سدھو نے وزیر اعظم عمران خان کی بے حد تعریف اور ستائش کی تھی۔
اِنہی نوجوت سنگھ سدھو کی کوششوں اور جوڑ توڑ سے مشرقی پنجاب کا وزیر اعلی چرنجیت سنگھ چنی کو بنایا گیا تھا۔ چنی صاحب کو راہل گاندھی اور سونیا گاندھی کی آشیرواد بھی حاصل تھی۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ اصل وزیراعلی نوجوت سنگھ سدھو جی ہی تھے۔ وہ اب کانگریس پارٹی کے ٹکٹ پر امرتسر سے الیکشن لڑ رہے تھے۔
انھیں AAP پارٹی کی ایک خاتون، جیون جوت کور، نے بھاری ووٹوں سے شکست دی ہے۔ سدھو جی کے وزیر اعلی دوست، چرنجیت سنگھ چنی، بھی بری طرح ہار گئے ہیں۔ انھیں بھی “آپ” ہی کے ایک غریب امیدوار، لبھ سنگھ اگوکی، نے ہرایا ہے۔ فاتح لبھ سنگھ اگوکی پرانے موبائل فون مرمت کرنے کا معمولی سا بزنس ہے۔ ان کے والد بس ڈرائیور اور والدہ ایک سرکاری پرائمری اسکول میں خاکروب ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نوجوت سنگھ سدھو نے اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے۔ ہارنے پر انھوں نے یوں ٹویٹ کیا: “ووٹوں کی شکل میں عوام کی آواز دراصل خدا کی آواز ہوتی ہے۔ میں اپنی شکست تسلیم کرتا ہوں۔ پنجاب کے عوام نے جنھیں مینڈیٹ دیا ہے، ان کی فتح قبول ہے۔ میری طرف سے اپنے مخالف اور فاتح امیدوار کو مبارکباد۔ “
اِدھر پاکستان میں عمران خان کے اقتدار کے خلاف فضائیں اپنے رنگ بدل رہی ہیں اور ادھر خان صاحب کے دوست، نوجوت سنگھ سدھو، اقتدار سے دور دھکیل دیے گئے ہیں۔ یہ مگر سیاست کی بازی گری ہے جو کسی کے حق میں کسی وقت بھی پلٹ سکتی ہے۔ بھارت کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے ان تازہ ترین انتخابات نے پنجاب میں “کانگریس” اور” شرومنی اکالی دل” کا 70سالہ اقتدار بھی ختم کر ڈالا ہے۔ اب اقتدار کا سورج غریبوں اور تہی دستوں کی پارٹی “آپ” کے گھر سے طلوع ہورہا ہے۔
اور یہ فتح دراصل اروند کجریوال کی ہے جن کا مذاق کانگریس بھی اڑاتی رہی ہے اور بی جے پی بھی۔ اب مشرقی پنجاب کی وزارتِ اعلی کا تاج “آپ” کے سر رکھا جارہا ہے۔ مشرقی پنجاب کے نئے وزیر اعلی “آپ” کے فاتح لیڈر، بھگونت سنگھ مان، ہوں گے۔ وہ16مارچ 2022 کو مشرقی پنجاب کے وزیراعلی کا حلف اٹھا رہے ہیں۔ ان کی عمر48سال ہے۔
انقلابی خیالات رکھتے ہیں۔ کئی برس ڈراموں میں مزاحیہ کردار بھی کرتے رہے ہیں۔ وہ تقسیمِ ہند سے قبل پنجاب میں آزادی کے سکھ ہیرو، بھگت سنگھ، کو اپنا اصل ہیرو مانتے ہیں اور بھگت سنگھ کے تتبع میں بسنتی پگڑی پہنتے ہیں۔ انتخابات کے دورن ان کا مقبول نعرہ تھا:” ہم پنجاب کو اصل پنجاب بنائیں گے۔ ” بھگونت سنگھ مان مشرقی پنجاب میں ایک مقبول و مضبوط لیڈر کی حیثیت میں سامنے آئے ہیں۔ انھوں نے تازہ انتخابات میں مشرقی پنجاب کے بڑے بڑے برج الٹ دیے ہیں۔ بھگونت سنگھ مان کی فتح نے نریندر مودی کو بھی پریشان تو کیا ہے لیکن جمہوری اخلاقیات کے تحت مودی نے بھی مان صاحب کو فتح کی مبارکباد دی ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس