مقبوضہ کشمیر میں آہستہ آہستہ میڈیا کا گلہ گھونٹا جارہا ہے ۔پریس کونسل آف انڈیا


نئی دہلی۔۔۔پریس کونسل آف انڈیا نے جموں و کشمیر میں صحافیوں کو درپیش خطرات  کے بارے میں حقائق معلوم کرنے والی کمیٹی  کی رپورٹ جاری کر دی ہے۔

کے پی آئی کے مطابق  رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں میڈیا پر بڑے پیمانے عائد پابندیوں کے ذریعے دھیرے دھیرے میڈیا کا گلہ گھونٹا جارہا ہے۔سخت قوانین کے تحت کشمیری صحافیوں کے خلاف مقدمات درج ہورہے ہیں انہیں قید وبند کا سامنا ہے۔ انتظامیہ کو شبہ ہے کہ کشمیر کے مقامی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد عسکریت پسندوں کی “ہمدرد” ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کے  لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا بھی کشمیری صحافیوں کو بھارت دشمن سمجھتے  ہیں۔

یاد رہے مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر  محبوبہ مفتی نے  29 ستمبر2021 کو   چیرمین پریس کونسل آف انڈیا  کے نام ایک خط میں کشمیری صحافیوں کو درپیش مشکلات سے آگاہ کیا تھا۔

محبوبہ مفتی کی شکایت پر پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین جسٹس سی کے پرساد نے ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم تشکیل دی تھی۔ محبوبہ مفتی نے کہا تھا کہ کشمیر میں صحافیوں کو اپنے فرائض انجام دینے میں فورسز اور حکام کا دبا وء کا سامنا ہے ۔صحافیوں کو غیر قانونی طریقے سے طلب کیا جاتا ہے ان کے گھروں پہ چھاپے مارے جاتے ہیں اور مختلف سخت قوانین کے تحت انہیں گرفتار کرکے ہراساں کیا جاتا ہے۔

پریس کونسل آف انڈیا کی ایک تین رکنی ٹیم جس میں روزنامہ بھاسکر کے گروپ ایڈیٹر پرکاش دوبے، دی نیو انڈین ایکسپریس کے صحافی گربیر سنگھ اور جن مورچہ کے ایڈیٹر ڈاکٹر سمن گپتا شامل تھے نے  اکتوبر اور نومبر میں جموں وکشمیر کا دورہ کیا تھا۔

جموں و کشمیر میں صحافیوں اور جدوجہد کرنے والی میڈیا انڈسٹری کو درپیش مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے مذکورہ ٹیم نے اپنی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا کہ اس خطے میں انتظامیہ اور صحافیوں کے درمیان رابطے میں ایک دوری پیدا ہو گئی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ صحافی کشمیر میں انتہائی دبا وکے ساتھ کام کرتے ہیں اور انہیں حکومتی اداروں، پولیس اور عسکریت پسندوں دونوں کی طرف سے مسلسل دبا کا سامنا رہتا ہے.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے  کمیٹی کو صاف صاف کہا تھا کہ بہت سے صحافی ‘ملک دشمن ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کشمیری صحافیوں کی پروفائلنگ کی جارہی ہے۔ ان پر مقدمات درج ہیں کچھ صحافیوں کو “خوفناک ‘کارگو سنٹر’ میں پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا تھا ۔کارگو سنٹر-  مسلح عسکریت پسندوں سے پوچھ گچھ کے لیے مختص ہے۔

پولیس نے “ایف ایف سی کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ 2016 سے اب تک 49 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان پر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔”ان میں سے 8 کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ا یکٹ یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ضمانت تقریبا ناممکن ہے۔

پولیس کے مطابق  بہت سے صحافی ‘ملک دشمن’ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔کمیٹی نے سفارش کی کہ اور اگر کوئی صحافی “اسلحہ اٹھائے ہوئے ہے یا دستی بم اور دیگر گولہ بارود لے کر جا رہا ہے تو وہ صحافی نہیں ہے۔ وہ ایک عسکریت پسند ہے اور اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جانا چاہیے۔تاہم سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ “حکومتی پالیسیوں کے خلاف تحریروں، یا مسلح افواج کی زیادتیوں کے بارے میں کسی رپورٹ، یا کسی نقطہ نظر کو ‘جعلی خبر’ یا ‘ملک مخالف سرگرمی قرار نہیں دے سکتی ‘  صحافی کو بغاوت کے الزام میں گرفتار نہ کیا جائے۔

  ایف ایف سی نے قرار دیا کہ حکومتی پالیسیوں یا ترقیاتی کاموں کی حمایت کرنا صحافیوں کا کام نہیں ہے۔ ایک صحافی کا کام خبروں کی رپورٹ کرنا ہے ، چاہے وہ سرکاری اہلکاروں کے لیے ناگوار ہی کیوں نہ ہو”، رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے۔”ایک تنازعہ والے علاقے میں بہت سے کھلاڑی ہوتے ہیں اور واقعات کے بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں۔ ایک صحافی کو حکومتی ورژن کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ حکومت کے ترجمان بھی نہیں ہیں۔

ایف ایف سی نے پایا کہ معلومات اکٹھا کرنے کے دوران صحافیوں کو دھمکیاں ملتی ہیں۔خاص طور پر اگست 2019  کے بعد سرکاری محکموں کے تعلقات عامہ کے کام کو پولیس نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے” کمیٹی نے  اس روش کو ختم کرنے پر زور دیا ہے۔

کمیٹی نے کہا، ” کہ صحافی خبریں اکٹھا کرنے اور منتقل کرنے کے لیے انٹرنیٹ جیسے مواصلاتی نیٹ ورکس پر انحصار کرتے ہیں، اور واقعات اور افراد تک رسائی حاصل کرتے ہیں”۔ انٹرنٹ بند کرنے  کی طاقت حکومت کے پاس ہے ۔ اس طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔

کمیٹی نے کہا کہ ان “پالیسیوں کو تبدیل کیا جانا چاہیے”۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “صحافیوں کو بطور پیشہ ور اپنے کام کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ  صحافیوں کو اندرون  اور بیرون ملک سفر کرنے کی آزادی سے محروم رکھا جاتا ہے  صحافیوں کے  حق سفر کا  احترام کرنا چاہیے۔

کمیٹی نے کہا کہ کشمیر پریس کلب کو کیوں  بند کیا گیا اس کی کوئی معقول وجہ سامنے نہیں آسکی۔ کشمیر پریس کلب کی رجسٹریشن کو بحال کیا جانا چاہیے، “اور سرکاری اہلکاروں کو  صحافیوں کے انتخابی عمل میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔