یومِ ثقافت پنجاب مبارک۔۔۔تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


آج 14مارچ ہے اور پنجاب کلچر ڈے منایا جا رہا ہے۔ ایک مدت سے تشخص کی تلاش میں بھٹکتا پنجاب کا اجتماعی شعور تاریخ،ثقافت اور وِرثے کی گٹھڑی اٹھائے، چٹانوں جیسے دَر کھٹکا رہا تھا ۔ پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔قدرت نے اپنی تمام فیاضیوں سے اسے نوازا ہے۔اسے دریاؤں، گل و گلزار،فصلوں اور میووں کی سرزمین بنایا۔ زندگی کے ابتدائی آثار بھی اس کی جھولی میں ڈال کر اسے معتبر کیا گیا۔ مہمان نوازی،خدمت خلق، رواداری اور صوفیانہ رنگ اس کی پہچان ہے۔ اس کے پاس بہت سے وسائل ہیں۔ مختلف اداروں میں عددی برتری حاصل رہی ہے جس کی وجہ سے تنقید کا سامنا بھی رہتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ اپنے شہروں اور دیہات کے در کسی کے لئے بند کرتا ہے نہ اناج کی بوریاں خود تک محدود رکھتاہے۔بانٹنا اس کے خمیر میں ہے وہ مادی ترقی ہو،صحت کے لئے ضروری ادویات ہوں یا کتب۔

اس سب کے باوجود پنجاب شدید قسم کے احساسِ محرومی کا شکار ہوتا رہا ہے جس کا تعلق بلاشبہ اس کے تشخص سے ہے۔دیگر صوبوں میں ان کے ثقافتی دن ہرسال منائے جاتے ہیں لیکن پنجاب میں ایسا دن متعین نہیں کیا گیا تھا۔پلاک ہمیشہ اس دن کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے چٹھیاں لکھتا رہا. پھر اس کی کاوشوں نے اس دن خواب سے حقیقت کا سفر کیا جب دو سال پہلے محکمہ اطلاعات و ثقافت نے خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے 14مارچ کا دن طے کر کے نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ گزشتہ سال پورے پنجاب میںہم آہنگی اور ثقافتی بہار دیکھ کر دل خوش اور آنکھ اظہارِ تشکر میں اشکبار ہو گئی۔ پنجاب کی پگ کا اونچا شملہ باوقار ہوگیا جب ہر افسر نے پگ پہن کر دفتری امور سرانجام دئیے۔8 کلب میں بھی ایک پروقار تقریب منعقد ہوئی اور محکمہ اطلاعات کے مختلف اداروں میں سربراہانِ،سیکرٹری اطلاعات و ثقافت ،ایڈیشنل چیف سیکریٹری اور وزیر ثقافت پنجاب نے وزیراعلی پنجاب کو َپگ پہنائی۔ نوجوان افسروں نے اس ملک کو سنوارنا ہے انھیں اپنی مٹی سے محبت اور کلچر کی ترویج کے لئے کام کرنا ہے۔ شکر ہے کہ ہماری آج کی نسل کسی احساسِ کمتری کا شکار نہیں بلکہ وہ اپنی اصل کی طرف لوٹ رہی ہے۔اپنے ثقافتی ورثے،زبان اور پہچان پر نازاں ہے۔امید ہے آج کے دن پنجاب کے گبھرو بیٹے پگ کے ساتھ لاچا کُرتا بھی پہنیں گے اور دنیا کو یہ پیغام دیں گے کہ ہم قدم جما کر اپنی دھرتی پر کھڑے ہیں اور اپنی ہزاروں سال کی وراثت پر فخر کرتے ہیں۔

جب آپ اپنے سر پر اُجلی اور طاقتور وراثت کی چھاؤں کی پگ پہن لیتے ہیں تو آپ کا مورال بلند ہو جاتا ہے،کام کرنے کی لگن تیز تر ہو جاتی ہے۔ زندگی کی اصل تصویر دکھائی دینے لگتی ہے۔

ہمارا کلچر صدیوں سے ہمارے ساتھ چلتا ہوا ہمارے وجود کا حصہ بن جاتا ہے،جب ہم اسے نظر انداز کرکے اجنبی فضاؤں میں اڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو جلدی گر جاتے ہیں کیونکہ اندر کی توانائی ہمارے ساتھ نہیں ہوتی۔انسان ظاہری اور باطنی قوتوں سے سرفراز ہوکر ہی حقیقی زندگی جی سکتا ہے۔آج ہمارے رویوں میںجو تنگی ، نفرت ، تعصب عدم برداشت اور بیزاری ہے اس کی وجہ بھی زمینی حقائق سے دوری ہے۔کلچر انسان کا ابتدائی استاد ہے جو عمر بھر اس کی رہنمائی کرتا اور اس کی شخصیت کو اجاگر کرتا رہتا ہے۔ہمارے عظیم صوفیانے معاشرے میں مثبت قدروں کی ترویج کی۔ دھمال، بھنگڑا،لڈی،گِدا اور صوفیانہ رقص سب ثقافتی اظہار ہیں جن کیساتھ روحانی طاقت منسلک ہے۔ دھمال اور بھنگڑے میں انسان اپنی ذات اور کائنات کے جال توڑ کر وسیع جہان میں داخل ہوتا ہے اور روح ِ مطلق سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔یہ تجربہ اسے اندر سے شفاف کرتا ہوا خیر بناتا ہے۔یہی سب موسیقی میں ہے، روح کی غذا کہلانے والی موسیقی روح کے تار چھیڑتی ہوئی وجود اور روح کو ایک نقطے پر لے آتی ہے۔ہمارا دل اور روح موسیقی کے دوران جن کیفیات سے گزرتے ہیں وہ کسی اور سبب حاصل نہیں کی جاسکتیں۔

ثقافتی سرگرمیوں کو آسان لفظوں میں بیان کریں تو یہ انسان کے خوش رہنے کا وسیلہ ہیں۔بھنگڑا ڈالنا،موسیقی سننا اور ثقافتی اقدار کے مطابق جینا فطری عمل ہے ،گناہ نہیں۔کسی کی جان لینا،کسی کو اذیت دینا،کسی معصوم کے ساتھ زیادتی کرنا ضرور گناہ ہےجوذات کے اظہار سے محروم رہ جانے والے لوگ زیادہ کرتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ثقافتی اقدار سے رابطہ منقطع کرکے چلنے والوں کی شخصیت ادھوری رہ جاتی ہےجوانہیں ظلم وزیادتی اور جبر کے اندوہناک واقعات پر ابھارتی ہے۔ خدا کرے پاکستان کے گلدستے میںسجے رنگا رنگ کلچر کے پھول سدا مہکتے اور اپنی بہار دکھاتے رہیں اور یہاں کے باسی اس کو سینے سے لگا کر آگے بڑھتے رہیں۔پنجاب کلچر ڈے مبارک ہو۔

بشکریہ روزنامہ جنگ