ایک دَورِ انتقام۔ دونوں صورتوں میں۔۔۔تحریر محمود شام


یہ سب کہتے ہیں اک قومی جماعت کی ضرورت ہےمگر وہ کیا کریں جن کو ’صدارت‘ کی ضرورت ہے

سر محفل نہ دیں کیوں گالیاں اپنی حکومت کو

شہید قوم ہیں ان کو وزارت کی ضرورت ہے

آج اتوار ہے۔ اپنے مستقبل سے ملنے ملانے۔ بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں کے سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ امید ہے آپ نے تیاری کی ہوگی۔ آئندہ نسل ہم سے کہیں زیادہ با خبر ہے۔ دنیا بھر کی معلومات ان کی انگلیوں پر ہیں۔ ہم پاکستان والوں کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں حالات کبھی پُر امن اور مستحکم نہیں رہے۔ ملک میں بد نظمی۔ کرپشن۔ جہالت۔ میرٹ کا قتلِ عام ہوتا دیکھتے ہوئے آپ کے میرے بیٹے دل ہی دل میں ترکِ وطن کی سوچ چکے ہوتے ہیں۔ ایک دن وہ یہ انکشاف کرتے ہیں کہ ان کا امیگریشن ہورہا ہے اور وہ کینیڈا یا امریکہ جاکر اپنی قسمت آزمائیں گے۔

یقیناً یہ میرا اور ہمارے ہم عصروں کا قصور ہے کہ ہم اپنے بیٹوں کو پُرامن ماحول نہ دے سکے۔ انٹرنیٹ پر وہ کتنے ملکوں میں خوشگوار ماحول دیکھتے ہیں۔ اپنی عمر کے نوجوانوں کے لیے کھلے میدان دیکھتے ہیں۔ ہمارے بیٹے موقع پرست نہیں ہیں۔ وہ ماں باپ کو اکیلے نہیں چھوڑنا چاہتے مگر وہ جب اپنے ساتھیوں کی رُسوائی دیکھتے ہیں۔ رئیسوں کے بچوں کو قتل کرکے بھی آزاد گھومتا پاتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مافیا کے سامنے سرنگوں پاتے ہیں۔ پولیس اسٹیشنوں۔ عدالتوں۔ سیکرٹریٹ میں صرف پیسے والوں کی رسائی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو وہ ملک سے باہر جانے کے طریقے ڈھونڈنے لگتے ہیں۔

عمران خان یہ دعویٰ کرکے آئے تھے کہ وہ ایسی حکومت کریں گے کہ ہمارے نوجوان اپنے ملک واپس آجائیں گے۔ پاکستان دوسرے ملکوں کو قرضہ دے گا۔ تین سال میں ان سب نعروں اور وعدوں کا کیا حال ہوا ہے؟ عمران خان بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ ملک میں افراتفری میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ پورے پاکستان کی نظریں اب اسلام آباد پر ہیں۔ 22کروڑ مہنگائی کو بھول گئے ہیں جو چیز جس قیمت پر مل رہی ہے، خرید رہے ہیں۔ قوم دو واضح حصّوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک حصّہ دعائیں کررہا ہے کہ اللہ تعالیٰ عمران خان کو شکست سے بچالے۔ ایک حصّہ پوری طرح مطمئن ہے کہ اب عمران خان سے نجات مل رہی ہے۔ پھر پرانی پارٹیاں حکومتیں بنائیں گی۔ اس ملک میں کوئی مسئلہ میرٹ پر حل نہیں ہوتا ۔ الیکشن کبھی منصفانہ نہیں ہوتے۔ قومی اسمبلی سینیٹ میں کبھی ووٹنگ اصولوں اور حقائق کے مطابق نہیں ہوتی۔ اس لیے یہاں آپ کوئی تجزیہ اصولوں کی بنا پر نہیں کرسکتے۔ یہاں غیب سے مداخلت ضرور ہوتی ہے۔ کہا جارہا ہے ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اپریل 1977 میں تینوں کا بیان آیا تھا کہ ہم منتخب حکومت کے ساتھ ہیں۔ جولائی 1977 میں کیا ہوا۔

جمعرات کی شام فیڈرل لاجز میں پولیس اور جمعیت علمائے اسلام کے رضاکاروں کے درمیان جو ہاتھا پائی اور تشدد ہورہا تھا وہ ہمارے بیٹے بیٹیاں پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں بھی دیکھ رہے تھے۔ ان کے ذہنوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہورہے تھے جو زبان مولانا فضل الرحمٰن استعمال کررہے تھے۔ شیخ محمد رشید برت رہے تھے۔ ان کے نزدیک اپنے ہم وطنوں کی جان و مال کی سلامتی کیوں نہیں تھی؟ 1952 میں بھی یہی حالات اور اب عین 70 سال بعد بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ مجید لاہوری کی جس غزل سے ہم نے آغاز کیا۔ اس میں وہ کہتے ہیں

گئے وہ دن ضروری جب بصارت اور بصیرت تھی

قیادت کے لیے اب مال ودولت کی ضرورت ہے

سیاست بے ضیافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی

سیاست کے لیے ہر شب ضیافت کی ضرورت ہے

70 سال پہلے کا ایک صحافی شاعر ودردمند پاکستانی یہی محسوس کررہا تھا۔ اس وقت پاکستان بنے صرف 5 سال ہوئے تھے۔ اب پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی اور آزادی کے 75ویں سال بھی صحافی شاعر دردمند پاکستانی یہی سوچ رہے ہیں۔ اس وقت ہم نے صرف ایک وزیر اعظم کو شہید کیا تھا۔ اب ہم مزید کو شہید کرچکے ہیں۔ کئی ایک کو رُسوا کرچکے ہیں۔ اس وقت بھی مال و دولت کی ضرورت تھی۔ اب بھی ہمارے منتخب نمائندے اپنی قیمت کروڑوں میں لگارہے ہیں۔ کسی نظریے کی جنگ ہے۔ نہ کسی مذہبی عقیدے کی۔ اس حکومت کو تو حکومت سے باہر ہونے والوں نے کبھی تسلیم ہی نہیں کیا۔ پہلے دن سے سلیکٹڈ کہہ رہے ہیں۔ آسمان کی آنکھ کیسے بھول سکتی ہے کہ 36سال سے حکومت کرنے والوں سے بے زار ہوکر ہی عمران خان کو متبادل سمجھا گیا تھا۔ اور یہ جو اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کی بات ہے۔ اس ملک میں 1958 کے بعد کون سی قیادت یا حکومت ہے جو ان کی مرضی کے بغیر اسلام آباد میں مسند نشین ہوئی ہو؟ اسلام آباد میں استحکام اور فروغ پنڈی کے سہارے سے ہی ہے۔ کراچی جب دارالحکومت تھا اس وقت بعض حکومتیں اپنے بل بوتے پر آجاتی تھیں۔ اس لیے دارالحکومت تبدیل کیا گیا۔

سنجیدگی سے تحقیق اور تحلیلِ نفسی کی ضرورت ہے کہ آج جہاں پاکستان ہے؟ 1971 کے بعد بچا ہوا پاکستان۔ یہاں ہمیشہ ابتدا سے مال و زر کو بصیرت اور بصارت پر فوقیت کیوں حاصل رہی ہے؟ ہمارے قائدین۔ کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں میں سفر کیوں کرتے ہیں؟ اربوں روپے مالیت کی حویلیوں اور ریاستوں میں کیوں رہتے ہیں؟ عوام سے تعلق استوار کرنے کی بجائے خواص سے پینگیں کیوں بڑھاتے ہیں؟ پارلیمانی نظام شروع سے انتشار اور ناانصافی کا سر چشمہ ہے۔ اسے ہم کیوں پسند کرتے ہیں۔ یہ عوام کا انتخاب ہے یا جاگیرداروں سرمایہ داروں کا۔تحریک عدم اعتماد، اپوزیشن کا آئینی حق ہے لیکن عوام کے بھی کچھ آئینی حقوق ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اپوزیشن تحریک کامیاب ہونے کی صورت میں ان کے لیے کیا کیا راحتیں لے کر آئے گی۔ کون وزیراعظم ہوگا۔ اس کی اقتصادی۔ تعلیمی۔ مذہبی پالیسی کیا ہوگی؟

مجھے تو اس کے بعد انتظام اپنی انتہا پر دکھائی دے رہا ہے۔ تحریک کی ناکامی کی صورت میں کپتان کا انتقام۔ کامیابی کی صورت میں سہ فریقی انتقام۔ دونوں صورتوں میں بیٹے بیٹیاں پوتے پوتیاں۔ نواسے نواسیاں خوف زدہ ہوں گے۔ اور ترکِ وطن کے لیے بے تاب۔ رہے نام اللہ کا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ