پپٹ تماشہ خوب عروج پر ہے۔ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ کیونکہ مفادات کے لئے چوائسز بدلتی رہتی ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے پچھتر سالوں سے ہم مفادات کی جنگ اور کٹھ پتلیوں کے تماشے ہی دیکھتے آئے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تیاریاں دیکھ کر حیرت نہیں ہو رہی ۔ حیرت ہو بھی کیوں؟ یہ تو ہماری نام نہاد جمہوری روایات کا حصہ بن چکا ہے کہ ہر سویلین حکومت کو اپنی آئینی مدت کے پانچ سال پورے کرنے سے پہلے ہی حکومت سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ اب بھی اسی رسم کو نبھانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
لیکن دکھ کی بات تو یہ ہے کہ جن سیاسی جماعتوں کو ہمیشہ یہ گلہ رہا کہ انہیں اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی جاتی آج وہ خود وہی کچھ کرنے جا رہی ہیں۔
2017 میں جب میاں نواز شریف کی حکومت کو گرایا گیا تو میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ “ستر سال سے آج تک کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔ منتخب وزیراعظم کو کسی نا کسی بہانے سے نکال دیا جاتا ہے۔ اب یہ کھیل تماشہ بند ہونا چاہیے”۔
نواز شریف صاحب تو اس وقت اس کھیل تماشے کو بند کرنا چاہتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ منتخب وزیراعظم کو اس کی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے۔ لیکن اب خود اسی کھیل تماشے کا حصہ بن کر عمران خان کی حکومت کو گرانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ سے ہمیشہ یہ شکوہ رہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی امور میں بے جا دخل اندازی کی وجہ سے سویلین حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر پاتیں۔ بار بار اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی امور سے دور رہنے کے مشورے دیے جاتے رہے۔ مگر آج یہی دونوں جماعتیں حکومت گرانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ کیا ملک میں آئین اور قانون کی بالا دستی یہ صرف اپنے لیے ہی چاہتے تھے؟ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں گرانے سے جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے لیکن کیا تحریک انصاف کی حکومت گرانے سے جمہوریت کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا؟
اگرچہ تحریک عدم اعتماد ان کا آئینی اور جمہوری حق ہے لیکن تحریک عدم اعتماد کے لئے یہ وقت مناسب نہیں ہے کیونکہ عمران خان کی حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے میں ایک سال اور کچھ مہینے ہی باقی رہ گئے ہیں۔ عمران حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ عمران خان کی مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف سے ان کی ناقص کارکردگی کا خوب ڈھنڈورا بھی پیٹا جاتا رہا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک اگر لانی ہی تھی تو ایک ڈیڑھ سال پہلے لے آتے جس کا شائد کچھ فائدہ بھی ہوتا لیکن حکومت کے آخری سال میں حکومت کو گرانا ملک کے لئے نقصان دہ ہے۔ کیونکہ نئی بننے والی حکومت کے پاس اتنا وقت نہیں ہو گا کہ وہ جامع پالیسیاں بنا کر ان پر عملدرآمد کر سکیں۔ اس لئے عدم اعتماد ملک کے لئے اور نہ ہی جمہوریت کے لئے فائدہ مند ثابت ہو گی۔
عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لئے جس طرح جوڑ توڑ کی کوششیں کی جا رہی ہیں اس سے یہ امید ہرگز نہیں کی جا سکتی کہ عوام کو اس کا کوئی فائدہ پہنچے گا۔ یہ سارا کھیل صرف اقتدار اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے کھیلا جا رہا ہے۔ اور ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ جیسے گھناؤنے عوامل جمہوریت کی جڑوں کو مزید کمزور کرنے کا باعث بنیں گے۔
اگر مسلم لیگ ق جس نے پہلے عمران خان کا ساتھ دیا تھا پنجاب کی وزارت اعلی کی پیشکش پر اپوزیشن کا ساتھ دے تو یہ عمل بھی مفادات اور اقتدار کے حصول کی کوشش قرار دیا جائے گا نہ کہ پاکستان کے عوام کے حالات کو سدھارنے کی کوشش۔
ہمارے ملک میں وزیراعظم کے لئے اپنی آئینی مدت کے پانچ سال پورے کرنا بہت چیلنجنگ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی بھی منتخب سویلین وزیراعظم پانچ سال پورے کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس حوالے سے ہماری تاریخ تلخ حقائق سے بھری پڑی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سے لے کر آج تک کے سیاسی منظر نامے میں وزارت عظمی کا عہدہ نت نئے تجربات کی بھینٹ چڑھتا رہا۔ جو کہ انتہائی افسوسناک صورتحال کا عکاس ہے۔
14 اگست 1947 کو پاکستان بننے کے بعد 15 اگست 1947 کو لیاقت علی خان کو ملک کا پہلا وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ وہ چار سال تک وزیراعظم کے عہدے پر رہے اور چار سال کے بعد انہیں ایک جلسے میں قتل کر دیا گیا۔ ان کے بعد خواجہ ناظم الدین وزیراعظم منتخب ہوئے اور ڈیڑھ سال کے بعد ان کی حکومت تحلیل کر دی گئی۔ 1953 میں محمد علی بوگرہ وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن دو سال کے بعد ان کی حکومت بھی ختم کر دی گئی۔ 1955 میں چوہدری محمد علی وزیراعظم نامزد ہوئے وہ بھی صرف ایک سال ہی وزیراعظم کے عہدے پر رہ پائے۔ 1956 میں حسین شہید سہروردی وزیراعظم نامزد ہوئے مگر ایک سال کے بعد ہی وہ بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ 1957 میں سکندر مرزا نے اسماعیل ابراہیم چندریگر کو وزیراعظم نامزد کیا مگر دو مہینے بعد انہوں نے بھی اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ ان کے علاوہ فیروز خان نون 1957 میں وزیراعظم منتخب ہوئے اور ایک سال سے بھی کم عرصہ اپنے عہدے پر رہے۔ 1971 میں نورالامین کو وزیراعظم نامزد کیا گیا لیکن وہ صرف تیرہ دن ہی وزیراعظم رہ پائے۔ 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کو وزیراعظم منتخب کیا گیا جو چار سال تک وزیراعظم رہے۔ چار سال بعد انہوں نے قبل از وقت انتخابات کرائے لیکن 5 جولائی 1977 میں ضیاءالحق نے مارشل لاء لگایا تو ذوالفقار علی بھٹو کو عہدے سے برطرف ہونا پڑا۔ 1985 میں محمد خان جونیجو ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور تین سال کے بعد انہیں بھی عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ 1988 میں بینظیر پہلی بار وزیراعظم بنیں وہ بھی ڈیڑھ سال تک ہی اس عہدے پر رہیں۔ 1990 میں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم نامزد ہوئے اور تین سال کے بعد ہی انہیں عہدے سے برطرف ہونا پڑا۔ 1993 میں دوبارہ اپنے عہدے پر بحال ہوئے تو محض دو ماہ بعد ہی ایک معاہدے کے تحت صدر اور وزیراعظم دونوں کو اپنے عہدوں سے مستعفی ہونا پڑا۔ 1993 میں بینظیر بھٹو دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوئیں اور اس بار بھی وہ اپنی مدت کے پانچ سال پورے نہ کر سکیں اور تین سال کے بعد ہی صدر فاروق لغاری نے انہیں عہدے سے برطرف کر دیا۔ 1997 میں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن اس بار بھی وہ اپنی مدت پوری نہیں کر سکے اور اڑھائی سال کے بعد پرویز مشرف نے انہیں عہدے سے برطرف کر دیا۔ 2002 میں ظفر اللہ جمالی ملک کے وزیراعظم نامزد ہوئے مگر وہ بھی ڈیڑھ سال تک ہی وزیراعظم رہ پائے۔ 2004 میں چوہدری شجاعت حسین کو وزیراعظم بنایا گیا لیکن وہ دو ماہ سے بھی کم عرصہ وزیراعظم رہے۔ 2008 میں یوسف رضا گیلانی ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور چار سال تین ماہ کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے انہیں توہین عدالت کے مقدمے میں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹا دیا۔ 2013 میں میاں محمد نواز شریف تیسری بار ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن وہ اس بار بھی اپنی مدت پوری نہیں کر سکے اور چار سال کے بعد 2017 میں انہیں سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے نا اہل قرار دے کر وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ 2018 میں عمران خان ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ان کی حکومت کو چار سال ہونے والے ہیں اور اب یہی خطرات ان کے سر پر بھی منڈلا رہے ہیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب سویلین وزیراعظم کے لئے آئینی مدت کے پانچ سال پورے کرنا بہت مشکل ہے اور تقریبا چوتھے سال ہی وزیراعظم کو کسی نہ کسی طریقے سے ہٹا دیا جاتا ہے تو کیوں نہ آئین میں ترمیم کر کے وزیراعظم کے لئے آئینی مدت پانچ سال کے بجائے چار سال کر دی جائے۔ پیپلز پارٹی کے سنئیر رہنما خورشید شاہ بھی بہت عرصے سے یہی تجویز دے رہے ہیں کہ اسمبلیوں کی مدت چار سال کر دی جائے۔ اس طرح اپوزیشن جماعتوں کے لئے چار سال تک صبر کرنا آسان ہو جائے گا ۔ اور حکومتی اراکین چار سال کو سامنے رکھ کر اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے زیادہ محنت کریں گے۔ جب امریکہ کی طرح حکومتیں اپنی چار سالہ آئینی مدت پوری کریں گی تو حکمرانوں کے پاس یہ بہانا نہیں رہے گا کہ ہمیں وقت سے پہلے حکمرانی سے ہٹا کر ملکی ترقی کا راستہ روکا گیا۔ اور کہ اگر ہمیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے دی جاتی تو ہم ملکی ترقی کے لئے مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے۔
اس وقت عمران خان کی حکومت کو گرانا محض جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس سے عمران خان کو نقصان تو نہیں پہنچے گا البتہ عمران خان کو اپنی چار سالہ ناقص کارکردگی کے باوجود ہمدردی کا ووٹ ضرور مل جائے گا۔ اور انہیں یہ بھی بہانہ مل جائے گا کہ مجھے قبل از وقت عہدے سے ہٹا دیا گیا ورنہ میں عوام سے کئے گئے اپنے تمام وعدے پورے کر لیتا۔ لہذا اس وقت حکومت کو گرانا اپوزیشن کے لئے نقصان دہ اور عمران خان کی حکومت کے لئے مفید ثابت ہو گا۔