گزشتہ 5 سال سے 8 مارچ کو تمام نوجوان لڑکے لڑکیاں، ہر شہر میں مل کر گاتے رہے ہیں۔
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
یہ آج کیوں یاد آ رہا ہے۔اس لئے کہ ایک وزیر نے خواب میں ان نوجوان بچوں کو پوچھتے دیکھا اب آپ ہم تک بھی پہنچ رہے ہیں اور وہ بھی وزیراعظم کے ذریعے۔ دنیا کے سامنے ہمیں شرمندہ کرنے کو اور سینکڑوں سوال اور اعتراضات ہیں جس کے باعث ہم ابھی تک فیٹیف سے نہیں نکل سکے۔ یہ8مارچ تو بین الاقوامی سطح پر ہر قریہ، ہر ملک اور اب تو ہر گھر میں منایا جاتا ہے۔ میرے بیٹے کہتے ہیں ’’اماں آج کے دن آپ آرام کریں گی‘‘ اور جب میں ان سے کہتی ہوں کہ گزشتہ چالیس سال سے ہم دن میں جلسہ کرتے اور شام کو مشعل بردار جلوس نکالتے ہیں۔ یہ دن آرام کا نہیں۔ تجزیے کا دن ہے کہ ہم نےمارجنلائزڈ طبقوں کیلئے دو قدم آگے بڑھائے ہیں کہ پیچھے ہٹے ہیں۔ میرےسامنے وہ ساری ڈاکٹر، نرسیں اور استاد کھڑے ہو جاتے ہیں، جن کے ساتھ المناک سانحے گزرے ہیں۔ سزا کے طور پر کسی کو تنخواہ نہیں ملی۔ کسی کےساتھ زیادتی کو دبا دیا جاتا ہے اور کسی کو نرس بننے پر طعنہ دیا جاتا ہے۔ اب جبکہ سعودی عرب میں ٹرین ڈرائیور کی نوکری کیلئے ہزاروں خواتین نے اپلائی کیا ہے۔ ایک طرف یہ حال ہے، دوسری طرف طالبان 8ماہ میں حکومت تک نہ بنا سکے اور خواتین کی درس گاہوں کے تالے نہیں کھلوا سکے اور پاکستان میں مجرم کو خون معاف کےعوض رہائی مل جاتی ہے اور کون خون معاف کرتا ہے،وہی ماں جس کی بیٹی کو غیرت کے نام پر بیٹے نے قتل کیا ہوتا ہے۔ ان فرسودہ روایات کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ ہماری 60فیصد عورتیں کھیتوں میں کام نہ کریں تو ہم بھوکے مر جائیں۔ ہمارے گھر میں آٹا کہاں سے آتا ہے۔ ان سب کو یاد دلاؤں کہ جو شعر ہمارے نوجوان پڑھتے ہیں انگریزوں کے زمانے میں وہ پھانسی لگتے ہوئے اشفاق اللہ صاحب نے پھانسی کے تختے پر پڑھا تھا۔ ہماری نوجوان نسل کے علاوہ ہم بڈھے بھی کھوکھلے نعرے سن کر اس طرح بے آبرو ہوتے ہیں جیسا کہ اندرا گاندھی جب مشرقی پاکستان میں بلا جواز فوج کو بنگال میں داخل کر رہی تھیں تو انہوں نے اپنے خطاب میں یہ شعر بھی کسی کے کہنے پر پڑھ دیا تھا۔
پھر جب خود اندرا گاندھی پر قاتلانہ حملہ ہوا تو پھر ان کی سمجھ میں آیا ہو گا کہ سرفروشی کی تمنا کیسے کیسے ظاہر ہوتی ہے البتہ انگریز کے زمانے میں جو سرفروشی کی تمنا تھی یا پھر بھٹو صاحب کی معزولی کے دنوں میں جس طرح قوم نے کوڑے کھائے تھے وہی سرفروشی کا طوفان ہماری بچیوں اور بچوں کے اندر موجزن ہے۔ اسی سے خوف زدہ ہو کر ہمارے وزیر صاحب نے ہدایت نامہ جاری کرنے کیلئے وزیراعظم سے رجوع کیا۔ نہیں جانتے تھے کہ ان کے سامنے شیریں مزاری اور شیری رحمان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہیں۔ آج اگر ہمارے درمیان عاصمہ جہانگیر نہیں تو کیا ہمیں قائداعظم اور فاطمہ جناح کا پشاور جانا بھول گیا ہے کہ جب پٹھانوں کے عمائدین نے فاطمہ جناح کے اسٹیج پر آنے پہ اعتراض کیا تو قائد اعظم نے وہ تاریخی تقریر کی جس میں عورتوں اور مردوں کے دوش بدوش آگے بڑھنے کی تاکید کی اور فاطمہ جناح اسٹیج پر بیٹھی تھیں۔ باپردہ خواتین بھی تحریک پاکستان میں نکلی تھیں۔ میری ماں اور اس زمانے کی ساری خواتین کو بی اماں نے سکھا دیا تھا کہ غلام کی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ مگر آج ہم آئی ایم ایف کے غلام ہیں۔
ہمارے پاس فخر کرنے کیلئے یہ منشیات فروش ہیں کہ ایک دن میں سوا تین ارب روپے کی منشیات، روزانہ کی بنیاد پر پکڑی اور شاید پھر بیچ دی جاتی ہیں۔ سوال کرو تو جواب ملتا ہے ’’افغانستان آزاد ہوا،ہم بھی آزاد ہیں، اپنے کاروبار میں۔ ‘‘ یاد کریں کیا75برس میں منشیات فروشوں کو پھانسی دی گئی۔ وقت کے لحاظ سے مقدمے بنتے ہیں اور عزیر بلوچ کی طرح 17مقدموں میں8سال بعد بری ہو جاتے ہیں۔ کچھ ملزم اور قاتل ظاہر جعفر ہمارے سامنے جوتوں سمیت ہماری آنکھیں پھوڑ رہا ہے، جسکا فیصلہ کرنے کیلئےایک ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔ اس میں وعدہ معاف گواہ کون کون بن رہا ہے۔ ایسے موضوعات ہیں، جن پر ضیاء الحق کے مارشل لا میں بھی ہم خواتین ہی نہیں دانشور اور مرد بھی معترض ہوتے تھے اور ہوتے رہے ہیں۔ پہلے مشرف نے عورتوں کو زیادتی کانشانہ بننے پر لغویات سے نوازا تھا۔ اسطرح اب پنجاب یونیورسٹی میں بھی بلوچ اور پشتون طلبا سے پوچھ گچھ کی چہ مگوئیاں کیا بتاتی ہیں۔ کیا وہ اس ملک میں برابر کے شہری نہیں۔
اب تو روز کے جلوس اور جلسے دیکھ کر یہ خفقان اٹھتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی تو عقل کی بات نہیں کرتا ہے۔ ڈینگیں تو ملایشیا اور جنوبی کوریا بنانے کی تھیں اور آخر ہر آمریت میں کرکٹ کو فروغ ملتا ہے۔ موج میلے والی قوم کو یہی سوجھتا ہے۔ البتہ کرکٹ کھیلنے کی حد تک، سارے نوجوان راضی مگر اب کسی کرکٹر کو زمام اقتدار سنبھالنے کیلئے وہ بابا بھی نہیں کہے گا جس نے اپنا کام نکلنے پہ ایک نوجوان کو دعائیں دیتے ہوئے کہا تھا’’خدا تجھے کرکٹر بنا دے‘‘۔
ہمارے ایک اور وزیر نے سچ بولنے پر 5 سال کی قید کی سزا سنا دی۔ ’’آئینہ دیکھ اپنا سا منہ ‘‘یہ صاحب وہی ہیں جو کبھی ایم کیو ایم میں تھے۔ پھر مقدمہ لڑنے کیلئے وزارت چھوڑ دی۔ پھر حکومتی پارٹی میں ’دیکھ ہم چلے آئے‘۔صاحب کو یوں اچھل کود کا انعام، بہرحال مل رہا ہے۔ اس ماحول میں مجھے یاد آیا کہ نیلوفر بختیار کوئی تین سالہ پروگرام بنانے کیلئے انگڑائی لیکر آئی تھیں۔ اب جبکہ 8مارچ کے دن نئے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں۔ نیلوفر بی بی کا تین سالہ مجوزہ ترقیاتی پروگرام جو ان کی حکومت کے ڈیڑھ سال میں توقع ہے کہ مکمل ہو جائے گا جس میں12فروری اور 8 مارچ کی خصوصیت کو اجاگر اسلئے کیاجائے گا کہ دنیا کی نظروں میں سرخرو ہوں۔
نئے قانونِ زباں بندی کے تحت مجھے توقع ہے کہ بڑ بولی خواتین اینکرز اور کالمسٹ کو نکیل ڈالنے کی واقعی ضرورت ہےکہ یہ سوئس اکاؤنٹس کے بارے میں کسی بھی پاکستانی کا راز فاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ ویسے بھی 5سال کی سزا کے باعث اس مہنگائی کے خرچوں سے بچ جائیں گے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ