کراچی (صباح نیوز) سیکریٹری جنرل حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان دردانہ صدیقی نے8مارچ ِ عالمی یوم خواتین کے سلسلے میں اعلان کیا ہے کہ 5مارچ تا 15 مارچ ”محفوظ عورت، مضبوط خاندان، مستحکم معاشرہ ” کے نام سے ملک گیر سطح پر مہم منائی جائے گی، جماعت اسلامی کے تحت کھاریاں میں ویمن ایکسیلنس سینٹر کا افتتاح کیا جائے گا،اسلام آباد اور صوبائی صدر مقامات میں پاکستانی عورت کی ترقی کے مختلف پہلوؤں پر فورمز کا انعقاد کیا جائے گا،فورمز میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی نمایاں خواتین شرکت کریں گی،کراچی،لاہور،پشاور اور اسلام آباد میں خواتین کی ریلیز کا اہتمام کیا جائے گا،حلقہ خواتین، جماعت اسلامی کے خواتین کی فلاح اور ترقی کے لئے اقدامات پر مشتمل سپیشل سپلیمنٹ جاری کیا جائے گا، بطور رول ماڈل امہات المؤمنین کی سیرت پر کتابیں اور کتابچے تقسیم کیے جائیں گے،فیملی کونسلنگ سینٹر کا آغاز کیا جائے گا جہاں خاندانی مسائل پر رہنمائی دی جائے گی،حلقہ خواتین جماعت اسلامی یوتھ کے تحت فورم رکھے جائیں گے،مختلف مقامات پر سمینارز اور ویبینارز بھی منعقد کئے جائیں گے،عورت کے تحفظ کے لئے پاکستان کے پارلیمنٹ سے منظور کیے گئے ” تحفظ نسواں ایکٹ ” کے تحت خواتین کے خلاف ہونے والے گھریلو تشدد، جنسی زیادتی، اخلاقی تحقیر جیسے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے،خواتین اور بچوں کے خلاف قتل اور زیادتی کے مجرمان کو فوری فیصلوں کے ذریعے عبرتناک سزائیں دی جائیں،آئین ِپاکستان کے آرٹیکل 35 کے تقاضے کے مطابق خاندان،ماں اور بچے کی حفاظت کے لیے مملکت اپنی ذمہ داری پوری کرے۔
ان خیالات کا اظہار دردانہ صدیقی نے ادارہ نورحق میں 8مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے جماعت اسلامی (حلقہ خواتین)کے تحت ”عشرہ حقوق نسواں و استحکام خاندان” کے عنوان سے ملک گیر مہم کے سلسلے میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر ڈپٹی سیکرٹری جنرل حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان آمنہ عثمان،ناظمہ حلقہ خواتین جماعت اسلامی صوبہ سندھ رخشندہ منیب،ناظمہ حلقہ خواتین جماعت اسلامی کراچی اسماء سفیر،ڈائریکٹر میڈیا سیل حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان عالیہ منصور،سیکرٹری اطلاعات حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان صائمہ افتخارودیگربھی موجود ہیں۔
دردانہ صدیقی نے مزید کہا کہ پاکستان میں عورت کے زیادہ تر مسائل مجموعی ملکی مسائل سے جڑے ہوئے ہیں،اور ان مسائل کا حل ایک اچھی حکومت کی فراہمی سے وابستہ ہے۔ کسی بھی معاشرے میں خراب اندازِ حکمرانی سے عورتیں اور بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان مسائل میں غربت اور تعلیم وصحت کی سہولیات کا فقدان سرِ فہرست ہے۔مہنگائی،بے روزگاری اوربدامنی جیسی صورتحال عورت کو براہِ راست متاثرکرتی ہے۔ اشیائے صرف کی ہوشربا قیمتوں نے ہر عورت کے لیے گھر کا خرچ چلانا مشکل کر رکھا ہے۔ہمارے ہاں دیہاتی عورت کے لیے پینے کا صاف پانی، حفظانِ صحت اور طبی سہولتوں کی عدم دستیابی بڑے مسائل ہیں۔زچہ و بچہ کو طبی سہولتیں نہ ہونے کے باعث کئی دوردراز علاقوں میں عورتیں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ آج جبکہ دنیا اکیسویں صدی میں قدم رکھ چکی ہے، ہمارے ہاں بیشمار دیہی علاقوں میں بچیوں پر تعلیم اورترقی کے دروازے بند ہیں۔جبکہ ان علاقوں کے بااثر لوگ جن میں خواتین بھی شامل ہیں ہمیشہ سے ہماری پارلیمان کی رونق رہے ہیں۔ پاکستان اگرچہ آئینی اعتبار سے اسلامی اور آبادی کے لحاظ سے مسلمان ملک ہے، لیکن بدقسمتی سے بہت سے پسماندہ علاقوں میں عورتیں انتہائی جاہلانہ رسوم و رواج کا شکار ہیں۔ان کو ملکیت بنا کر رکھا اور بیچا خریدا جاتا ہے۔ شہری اور تعلیم یافتہ حلقوں میں بھی عورتوں سے متعلق روایتی اور غیر اسلامی رویوں کی کمی نہیں۔ عورتوں کو کفالت، مہر اور وراثت کے حقوق سے محروم رکھنا، ان پر ذہنی و جسمانی تشدد روا رکھنا ایک عام رویہ ہے۔ مجموعی طور پہ پاکستان میں غربت کی شرح مردوں کی نسبت عورتوں میں زیادہ ہے اور اس کی بنیادی وجہ ہمارے معاشرتی رویے ہیں۔ کارکن عورتوں کی بھاری اکثریت دیہاتوں میں زراعت کے کام سے وابستہ ہے اور فیکٹریوں میں کم تنخواہوں پر کام کرتی ہے، جبکہ محض چند فیصدشہروں میں معمولی نوکریاں حاصل کرتی ہیں اورعموماً ان کو مردوں سے کم تنخواہ دی جاتی ہے۔زیادہ تر کارکن عورتوں کو اپنی کمائی خرچ کرنے پر اختیار نہیں ہے۔ شہروں اور دیہاتوں میں عورتوں اور بچیوں کے لیے محفوظ ماحول کی فراہمی دن بدن زوال کا شکار ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں صرف پنجاب میں چالیس ہزار سے زیادہ عورتیں اور بچیاں لاپتہ ہوئی ہیں جو انتہائی تشویش ناک اعدادوشمار ہیں جبکہ بازیاب ہونے والی بہت سی عورتوں سے قحبہ گری کروائی جاتی تھی۔ انہوں نے کہاکہ عورت کو اسلام کے عطا کردہ حقوق حق وراثت،حق کفالت،حق ولایت،حق وصیت اور حق نکاح و خلع اور نکاح میں رضامندی جیسے قانونی و معاشرتی حقوق کی عملی طور فراہمی کو ممکن بنایا جائے،شہروں اور دیہاتوں میں عورتوں کے لیے باعزت روزگار اور ہوم بیسڈ انڈسٹریز کے لیے آسان شرائط پہ قرضے فراہم کیے جائیں،عورت کو جائے ملازمت پر پرسکون ماحول اورہر طرح کی ہراسانی سے تحفظ فراہم کیا جائے،آئین کے آرٹیکل 37(g) کے مطابق حکومت عصمت فروشی، قمار بازی، ضرررساں ادویات کیاستعمال، فحش لٹریچر اور اشتہارات کی طباعت، نشر و اشاعت اور نمائش کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات کرے،ذرائع ابلاغ میں عورت کے وقاراور رشتوں کے تقدس کو ملحوظ رکھا جائے اوراخلاقی حدود کی پاسداری کی جائے،بچیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ پرائمری سے کالج کی سطح تک طالبات کے علیحدہ تعلیمی ادارے بحال کیے جائیں،طلبہ وطالبات کی اخلاقی تربیت اور تعمیر سیرت و کردارکے لیے شرعی احکام کو شامل نصاب کیا جائے،خواتین کی ذہنی اور جسمانی صحت نسلوں کی بقا کے لئے انتہائی اہم ہے۔دیہی اور شہری علاقوں کی خواتین کو علاج معالجہ کی بہتر سہولیات فراہم کی جائیں۔