لاہو ر(صباح نیوز)امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ کسانوں سے چار ہزار فی من کے حساب سے گندم خریدی جائے، روٹی کی قیمت دس روپے سے تجاوز نہ کرے، ٹیوب ویل کے لیے بجلی کا فلیٹ ریٹ مقرر کیا جائے، شوگر مافیا حکومت کا حصہ ہے اور کسان کا بدترین استحصال کر رہا ہے، مطالبات کے حق میں کسان تنظیمیں متحد ہو کر 15اپریل کو پنجاب کے تمام ضلعی ہیڈکوارٹرز میں دھرنے دیں، کاشت کار ٹریکٹر ٹرالیوں سمیت احتجاج میں شرکت کریں، 15اپریل کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا، دیہاتوں سے لاہور اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا آپشن بھی استعمال کریں گے، کسانوں کو اپنے حق کے لیے متحد ہونا پڑے گا۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے زراعت اور کسان کو درپیش مسائل، گندم کی پیداوار، مناسب قیمت، خریداری پالیسی کے حوالے سے جماعت اسلامی پنجاب وسطی کی میزبانی میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ نائب امیر لیاقت بلوچ، سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف، امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی جاوید قصوری،امیر پنجاب جنوبی سید ذیشان اختر، امیر پنجاب شمالی ڈاکٹر طارق سلیم، صدر کسان بورڈ پنجاب وسطی رشید منہالہ، پی پی رہنما حسن مرتضیٰ، سابق آئی جی پنجاب ظفر عباس لک،
سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی، حفیظ اللہ نیازی، میاں حبیب اللہ، کسان تنظیموں کے سربراہان، سیاسی ومذہبی پارٹیوں کے لیڈران اور وکلا بھی اس موقع پر موجود تھے۔آل پارٹیز کانفرنس کے شرکا نے کسانوں کی زبوں حالی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کسان دشمنی کی تمام حدیں عبور کر چکی ہے، گندم کی امدادی قیمت چار ہزار روپے فی من، ٹیوب ویلز کے لیے بجلی کے فلیٹ ریٹ کے ساتھ ساتھ حکومت زرعی ادویات بیج، کھادوں اور زرعی آلات کی قیمتوں میں بھی کمی کرے، کسانوں کو بلاسود قرضے دیے جائیں، گندم کی مارکیٹ کو اوپن کر کے اس کی نقل و حرکت پر پابندی ختم کی جائے، شوگر مالکان کسانوں کے اربوں روپے دبائے بیٹھے ہیں، گنے کی قیمت کا چینی کے ریٹ کے تناسب سے تعین کیا جائے۔ امیر جماعت نے آل پارٹیز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے گزشتہ برس بھی کسانوں سے گندم کو خریداری کے موقع پر ایسا دھوکا دیا جس کی مثال نہیں ملتی، امدادی قیمت کا تعین کر کے پنجاب حکومت مکر گئی، اس سے قبل ایک بلین ڈالر گندم امپورٹ کا سکینڈل سامنے آیا جس کی کوئی تحقیقات نہیں کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ گندم کی امدادی قیمت کو روٹی کی قیمت سے متصل نہ کیا جائے، حکومت دونوں پر سبسڈی دے، یہ اقوام متحدہ کے فوڈ سیکیورٹی کے چارٹر کے عین مطابق ہے۔
انھوں نے کہا شوگر مل مالکان کسانوں سے ساڑھے تین سو روپے من گنا خرید کر 180روپے فی کلو چینی بیچ رہے ہیں، انھیں درآمد اور برآمد کی بھی اجازت مل جاتی ہے، ککس بیکس لیے اور دیے جاتے ہیں، حکمرانوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی معیشت اشتہاروں پر چل رہی ہے، زمینی حقائق قطعی مختلف ہیں، زراعت سے 60فیصد آبادی وابستہ ہے، صرف چار سے پانچ فیصد بڑے جاگیردار بقیہ چھوٹے کاشت کار ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں، ان کے بچے سکولوں سے باہر ہیں، انھیں علاج معالجہ کی سہولیات اور بنیادی حقوق تک دستیاب نہیں، تمام کسان تنظیموں کو جماعت اسلامی کا پلیٹ فارم آفر کرتے ہیں، یہ اپنے مطالبات کے لیے متحد ہو جائیں، ہمیں کریڈٹ کا کوئی مسئلہ نہیں۔ جماعت اسلامی نے غزہ کی انتہائی تشویش ناک صورت حال کے پیش نظر ”حق دو عوام کو” تحریک کی سرگرمیوں کو ری شیڈول کیا ہے تاہم گندم کی کٹائی کا آغاز ہونے جا رہا ہے اور یہ مسئلہ بھی انتہائی سنگین ہے اس لیے 15اپریل کو پورے پنجاب میں احتجاج کر کے حکومت کی توجہ کسانوں کے مطالبات کی جانب مبذول کرائی جائے گی۔ وزیراعظم سے ملاقات ہوتی ہے تو انھیں بھی کہوں گا کہ مطالبات تسلیم کیے جائیں، بصورت دیگر فیصلہ سڑکوں پر ہو گا اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔