اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس اطہر من اللہ نے بے نامی جائیدادیں بنانے والے ملزم کی اپیل کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ معاشرے کاسب سے بڑاالمیہ نیب خود رہی ہے۔ نیب نے سابق وزیر اعظم کے خلاف دوریفرنس دائر کیئے ، احتساب عدالت نے کرپشن کے الزام سے بری کیا اور نامعلوم ذرائع آمدن کے الزام پر سزادی،احتساب عدالت نے تسلیم کیا کہ کرپشن نہیں ہوئی۔ موقع دیئے بغیر کسی کواُس کی جائیداد سے محروم کررہے ہیں، نیب آرڈیننس میں بے نامی کوکیسے ثابت کرتے ہیں۔ 90فیصد لوگ اپنی جائیدادوںکی وضاحت نہیں کرسکتے۔
جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ نیب کیسز میں کیوں مجھ سے سچ بلواتے ہیں، جس سے کام لینا ہوتا ہے کام لے لیتے ہیں چھوٹے لوگوں کو پکڑ لیتے ہیں۔بے نا می دارخودتوعدالت آتے ۔ کیوں درخواست گزار نے کہا کہ میں نے معلوم ذرائع سے جائیدادیں خریدی ہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے ہوتا ہی عدالت کا فیصلہ ہے ہم نے دیکھنا ہوتا ہے کہ فیصلہ درست ہے یا غلط ، ہمارے پاس فیصلے کو تبدیل کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔اگرآئین کی تشریح کی بات آتی ہے تویہ آئینی بینچ کادائرہ اختیار ہے۔ درخواست گزار محکمہ ہائی وے میں ایکسیئن تھااور اتنی معمولی جائیداد۔ اگر حکومت یہ کرے کہ لکھ پڑھ کے بغیر کوئی جائیدادکی خریدوفروخت نہیں ہو گی توپھر دیکھیں کتنا ٹیکس جمع ہوتا ہے۔
جبکہ جسٹس ملک شہزاداحمد خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگردرخواست گزارکوچھوڑ دیں توپھر نیب اُس کے بیوی اور بچوں کورگڑادیتی رہے گی ، نیب کوفری ہینڈمل جائے گا۔ آگے بکراعیدآرہی ہے پکاباہرآجائے گا اگرابھی چھڑوائیں گے توپھر دوبارہ اندر ہوجائے گا۔ چھوٹے بندے پھنس جاتے ہیں اور بڑے بندے چھوٹ جاتے ہیں، میں نے پڑھا جنرل رانی کے لئے پورا قانون تبدیل کردیا گیا تھا۔سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ملک شہزاد احمد خان پر مشتمل3رکنی بینچ نے رحیم بخش سومرو کی جانب سے نامعلوم ذرائع سے حاصل شدہ رقم سے اپنی بیوی، بیٹیوں اور بیٹیوں کے نام بے نامی جائیدادایں بنانے پر پراسیکیوٹر جنرل نیب کے توسط سے وفاق پاکستان کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزار کو احتساب عدالت کی جانب سے 4سال قید بامشقت اور جائیداد ضبط کرنے کاحکم دیا تھا جسے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے برقراررکھا گیا۔نیب کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل ناصر محمود مغل پیش ہوئے جبکہ درخواست گزار کی جانب سے آفتاب عالم یاسر بطور وکیل پیش ہوئے۔
وکیل کاکہنا تھا کہ 47لاکھ روپے ٹرانسفر ہونا تھے۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ آپ نے پلی بارگین بھی کی تھی۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ میں نیب میں ایک سال پراسیکیوٹر رہا، جب کوئی کیس آتا تھا توہم خوش ہوتے تھے کہ شکار مل گیا۔ نیب وکیل کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کے فیصلہ میں قراردیا ہے کہ نیب ترامیم کااطلاق ان کیسز پر نہیں ہوگاجن کا فیصلہ ہوگیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ ایک چیز کافیصلہ ہوگاتودوبارہ ٹرائل تونہیں ہوگا۔ وکیل آفتاب عالم یاسر کاکہنا تھا کہ ان کے مئوکل کے خلاف ریفرنس کی ویلیو 50کروڑ روپے سے کم ہے اس لیئے یہ نیب کاکیس نہیں بنتا۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ منطقی بات ہے کہ اس کو دوبارہ کھول کر دوبارہ ٹرائل کے لئے بھیجا جائے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سامنے ہوتا ہی عدالت کا فیصلہ ہے ہم نے دیکھنا ہوتا ہے کہ فیصلہ درست ہے یا غلط ، ہمارے پاس فیصلے کو تبدیل کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ یہ ٹرانسفر کاکیس نہیں ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کامسکراتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ ایشوحل ہونا ہے اوراگرآئین کی تشریح کی بات آتی ہے تویہ آئینی بینچ کادائرہ اختیار ہے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ اُس کامئوکل جیل میں ہے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ آگے بکراعیدآرہی ہے پکاباہرآجائے گا اگرابھی چھڑوائیں گے توپھر دوبارہ اندر ہوجائے گا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ 6ماہ سزارہتی ہے ،47لاکھ روپے جرمانہ ہے میں دینے کے لئے تیار ہوں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پیسے مانتے ہیں توہم سزاکم کردیتے ہیں۔نیب وکیل کاکہنا تھا کہ نیب نے ملزم کی جائیدادیں ضبط کی ہیں، ان جائیدادوں کی قیمت اُس وقت 47لاکھ تھی ، جائیدادوں کی خریداری کے ذرائع نہیں بتاسکے تھے۔ وکیل آفتاب عالم یاسر کاکہنا تھا کہ ان مئوکل ایکسیئن تھاجو کہ 2014میں ریٹائرڈ ہوچکا تھا اور نیب نے 2016 میں ریفرنس دائر کیا، جائیدادمیری اہلیہ کے نام پر تھی وہ تحقیقات میں شامل نہیں تھی نیب کی جانب سے اسے بلایا ہی نہیں گیا۔ نیب وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزارکے نام پر ایک بھی جائیداد نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا بے نامی ثابت کرنے کے لیئے سب کوفریق بنانا ہوگااور ثابت کرنا ہوگا کہ یہ اُن کی جائداد ہے ۔
جسٹس جمال خان مندوخل کاکہنا تھا کہ کیاکسی گواہ نے یہ بات کی کہ یہ جائیدادیں درخواست گزار نے خریدی ہیں، اگر وضاحت میں ناکام ہوتا توپھر کیس بنتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کانیب وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے کہاں لکھا ہے کہ یہ اِن کی بے نامی جائیداد ہے، کیاخاتون کوبلایا ہے، کیادرخواست گزار سے پوچھا کہ آپ نے بچوں کے نام جائیدادیں کروائی ہیں۔ نیب وکیل ناصر محمود مغل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار نے کا کہ میں نے جائیدادیں خریدی ہیں۔ نیب وکیل کاکہنا تھا کہ 10بھائیوں کو وراثت میں 102ایکڑر زمین ملی تھی نہ کہ اکیلے درخواست گزار کو، درخواست گزار نے 2008،2009اور2012میں نابالغ بچوں کے نام جائیدادیں خریدیں اور کہا کہ میں نے معلوم ذرائع سے خریدی ہیں۔ آفتاب عالم یاسر کاکہنا تھا کہ میرے پاس کروڑوں روپے کی زمین ہے اس کی آمدنی بھی آتی ہے، تفتیشی افسر نے کہا کہ جتنے اثاثے ہیں یہ جائیدادیں خرید سکتا ہے۔ نیب وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار 1985میں گریڈ17میں بھرتی ہوا اور 2014میں گریڈ18میں بطور ایکسئین ریٹائرڈ ہوا۔
جسٹس جما خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار محکمہ ہائی وے میں ایکسیئن تھااور اتنی معمولی جائیداد۔ نیب وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزا رکی جائیدادیں ضبط ہوچکی ہیں جن کے خلاف یہ آج عدالت نہیں گئے۔ نیب وکیل کاکہنا تھا کہ بھائی، بھتیجے بیچ رہے ہیں اور یہ سب خرید رہا ہے۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے،نیب نے کیس ٹھیک نہیں بنایا، یہ بیوی اور بچے ہیں یہ ان کے نام کیسے جائیداد ہے نیب کو بیوی بچوں سے پوچھنا چاہیئے تھا۔ نیب وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزارنے کہااُس نے خریدی ہے اس لئے بیوی بچوں کونہیں بلایا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیوں درخواست گزار نے کہا کہ میں نے معلوم ذرائع سے جائیدادیں خریدی ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جائیدادوں کی کتنی مالیت ہے، اگر پلی بارگین کرے توپھر کیاہوگا۔ اس پر نیب وکیل کاکہنا تھا کہ اُس وقت جائیدادوں کی مالیت 47لاکھ تھی تاہم پلی بارگین کامرحلہ ختم ہوگیا ہے، یہ کہنا تھا کہ پیسے لے لیں اور جائیدادیں چھوڑ دیں، اب جائیدادیں ضبط ہوچکی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاوکیل آفتاب عالم یاسر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بچوں کے معلوم ذرائع بتادیں۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کہنا تھا کہ پلی بارگین کی درخواست کیوں دی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اطلاع دینے والے کوفریق نہیں بنایا جاتا وہ اطلاع دینے والا ہوتا ہے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ اُس کے مئوکل کا کاروبار بھی تھا۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کاروبارکب کیا۔
وکیل کاکہنا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد۔ نیب وکیل کاکہنا تھا کہ وہ ایک غلطی تسلیم کرتے ہیں کہ مخصوص جائیدادوں کی نشاندہی نہیں کی گئی تاہم یہ جائیدادیں وہی ہیں جو نیب ریفرنس میں درج ہیں۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ اگردرخواست گزارکوچھوڑ دیں توپھر نیب اُس کے بیوی اور بچوں کورگڑادیتی رہے گی ، نیب کوفری ہینڈمل جائے گا۔ نیب وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزارنے تسلیم کرلیااس لئے اُس کے بچوں کونہیں بلایا گیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ چاہتے ہیں کہ کیس واپس بھجوادیں۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ مجھے نیب کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑاجاسکتا۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلے کی کیاتاریخ ہے۔
وکیل کاکہنا تھا کہ احتساب عدالت کا2017کا فیصلہ ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ کیا جائیدادیں ضبط کرنے کے پراسیس کودرخواست گزارنے چیلنج کیا ہے،2017میں خلاف فیصلہ ہوااس کو چیلنج نہیں کیا۔ آفتاب عالم یاسر کاکہنا تھا کہ دیکھنا ہے کہ کیا میرے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہوئی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کانیب وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ نے بے نامی داروں کوبلا کرپوچھا کہ تھا کہ ان کے پاس ذرائع تھے کہ نہیں، ساری چیزیں آپ کو معلوم کرنا تھیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ جس کے نام جائیداد ہے اس کی کوئی توانکوائری ہونی چاہیئے تھی، 342کابیان پورامانیں گے پک اینڈ چوزنہیں کریں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ بے نامی دارآکرکہہ دیتے کہ ہماراکوئی تعلق نہیں توبات ختم، وہ سورس نہ بتاتے تو نکل جاتے، ہوسکتا ہے بچے ایسے کام کرتے ہوں جن کاوالد کومعلوم نہ ہو۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ موقع دیئے بغیر کسی کواُس کی جائیداد سے محروم کررہے ہیں، نیب آرڈیننس میں بے نامی کوکیسے ثابت کرتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا بے نامی دار کوپوچھا کہ آپ کے پاس جائیدادکہاں سے آئی ، ہوسکتا ہے وہ ثابت کردیتے۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ کرپٹ پریکٹس کی کیاشہادت دی ہے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ 50کروڑ سے کم کامعاملہ ہے اس لئے یہ کیس نیب کے پاس نہیں جائے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ کانیب وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کوئی کرپشن یاکرپٹ پریکٹس ثابت کی یا صرف ہوا میں کہہ دیں، صرف الزام لگانے سے نہیں ہوگا۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ 90فیصد لوگ اپنی جائیدادوںکی وضاحت نہیں کرسکتے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا آپ اپنے بچوں کے زرائع نہیں بتاسکتے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر حکومت یہ کرے کہ لکھ پڑھ کے بغیر کوئی جائیدادکی خریدوفروخت نہیں ہو گی توپھر دیکھیں کتنا ٹیکس جمع ہوتا ہے۔ نیب وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزارجتنی جائیدادیں خرید رہا ہے نابالغ بچوں کے نام خرید رہا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ گریڈ17سے اوپر کاسرکاری ملازم کاروبار نہیں کرسکتا ، گریڈ 16تک کے ملازم اجازت لے کرکاروبار کرسکتے ہیں۔ نیب وکیل کاکہنا تھا کہ یتیم بچے کیوں چچا زمین تحفہ میں دیں گے۔
جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ چھوٹے بندے پھنس جاتے ہیں اور بڑے بندے چھوٹ جاتے ہیں، میں نے پڑھا جنرل رانی کے لئے پورا قانون تبدیل کردیا گیا تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم آج کل فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کاکیس سن رہے ہیں اس میں برگیڈیئر (ر)فرخ بخت علی کابار بارذکر آرہا ہے، بغاوت کی کوشش پراس کا جنرل ضیاء الحق نے ٹرائل کیا اور پھر خود وہی کام 1977میں کیا جو برگیڈیئر ایف بی علی نہ کرسکا اور بعد میں اُس کو معافی دے دی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ نیب کے کیسز میں کیوں مجھ سے سچ بلواتے ہو۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ معاشرے کاسب سے بڑا المیہ نیب خودرہی ہے۔ نیب وکیل کاکہنا تھا کہ ہمارے ادارے سمیت ہرادارے کاالمیہ ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جس سے کام لینا ہوتا ہے لے لیتے ہیں چھوٹے لوگوں کوپکڑ لیتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کانیب وکیل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نیب نے سابق وزیر اعظم کے خلاف دوریفرنس دائر کیئے ، احتساب عدالت نے کرپشن کے الزام سے بری کیا اور نامعلوم ذرائع آمدن پر الزام پر سزادی،احتساب عدالت نے تسلیم کیا کہ کرپشن نہیں ہوئی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بے نامی دارتوعدالت آتے۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ فیصلے کوبرقراررکھتے ہیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ ضمانت دے دیں آگے عیدالفطر ہے، میرا مئوکل بیمار ہے۔جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ علاج کاکہہ دیتے ہیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ عدالت کاحکم سرآنکھوں پر۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ اگلی سماعت پرفیصلہ کردیں گے۔ بینچ نے کیس کی مزید سماعت 8اپریل تک ملتوی کردی۔ جسٹس ملک شہزاد احمدخان کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیس جس نمبر پر بھی ہوگاسن لیں آج بھی سواگھنٹہ سنا ہے۔