موقع پر کیا ہوا یہ اللہ تعالیٰ کوپتا ہے ہم نے ریکارڈ دیکھنا ہے ۔ ایک لفظ بھی گولی سے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ موقع پر کیا ہوا یہ اللہ تعالیٰ کوپتا ہے ہم نے ریکارڈ دیکھنا ہے۔ تفتیشی افسر نے دونوں طرف کانقطہ نظر لینا تھا، تفتیشی نے سارے ثبوت شکایت کندہ سے لئے،تفتیشی سارے ثبوت سامنے رکھیں، اللہ جانے اور عدالت جانے۔ ایک لفظ بھی گولی سے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ مقتول نے ہوٹل خالی کرنے کانوٹس نہ دے کر غلط کیا تاہم درخواست گزاروں کو یہ اختیار نہیں تھا کہ کسی کوگولی ماردیں۔ ہوٹل کاتنازعہ تھا گولی مارنے کی بجائے دیوانی دعویٰ دائر کردیتے۔ہم اڈیالہ جیل کے سواہرجگہ ساتھ جانے کوتیار ہیں۔ ایک موبائل فون پر لوگ قتل کردیتے ہیں۔

جبکہ جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ میڈیا نے سنی سنائی بات چلادی ہوگی، بڑے بڑے کام ہوتے ہیں ہم خبروں سے متاثر نہیں ہوتے،میڈیاوالا یہ تونہیں کہتا کہ میں موقع پر موجود تھا بعد میں جومرضی رپورٹنگ کرتا رہے، وہ عینی شاہد گواہ تونہیں بن سکتا۔ شہر کے دل میں اور دن دیہاڑے واقعہ ہوا ہے۔ جبکہ عدالت نے قتل کیس میں عمر قید کی سزاپانے والے ملزمان شکیل احمد عباسی اور شبیراحمد عباسی سزاکم  کرکے 18سال کردی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ملک شہزاد احمد خان پر مشتمل3رکنی بینچ نے جمعرات کے روز اسلام آباد کے علاقہ ستارہ مارکیٹ میں سٹار ہوٹل میں 9دسمبر2016کوقتل ہونے والے چوہدری نثارالحق کیس کے ملزم شکیل احمد عباسی اورشبیراحمد عباسی کی جانب سے عمر قید کی سزاکے خلاف دائر اپیلوںپر سماعت کی۔

درخواست گزاروں کی جانب سے بشارت اللہ خان جبکہ مدعاعلیہان کی جانب سے سینئر وکیل سردار محمد لطیف خان کھوسہ پیش ہوئے۔درخواست گزاروں کے وکیل بشارت اللہ خان کاکہنا تھا کہ 9دسمبر2016کو اسلام آباد کے علاقہ ستارہ مارکیٹ میں واقعہ پیش آیا، ٹرائل کورٹ نے تمام ملزمان کوبری کردیا تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے شکیل عباسی اورشبیر عباسی کو عمر قید کی سزاسنائی۔وکیل کاکہنا تھا کہ شکیل احمد عباسی اور شبیر احمد عباسی پر فائرنگ کاالزام تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ موقع پر کیا ہوا یہ اللہ تعالیٰ کوپتا ہے ہم نے ریکارڈ دیکھنا ہے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ خاتون ڈاکٹر نے پوسٹمارٹم کیا۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا خاتون کے پوسٹمارٹم کرنے پرپابندی ہے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ عبدالحق شکایت کندہ ہے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ 10منٹ میں نعش پمز پہنچ گئی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 2گھنٹے میں پوسٹمارٹم ہوگیا تھا۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ میڈیا نے سنی سنائی بات چلادی ہوگی، بڑے بڑے کام ہوتے ہیں ہم خبروں سے متاثر نہیں ہوتے،میڈیاوالا یہ تونہیں کہتا کہ میں موقع پر موجود تھا بعد میں جومرضی رپورٹنگ کرتا رہے، وہ عینی شاہد گواہ تونہیں بن سکتا۔

وکیل کاکہنا تھا کہ میں نے دوہوٹل مقتول سے کرائے پر لئے ہوئے تھے اور ایک کروڑ روپے ایڈوانس دیا ہواتھا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ تینوں بھائیوں کے نام ایف آئی آرمیں ڈال دیئے تاکہ پیچھے کوئی نہ بچے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ ایک فائرنہیں مارا بلکہ 5فائر مارے، میڈیا رپورٹ کی جان چھوڑ دیں ، چھاتی اور پیٹ پر گولیاں لگیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ مقتول نے ہوٹل خالی کرنے کانوٹس نہ دے کر غلط کیا تاہم درخواست گزاروں کو یہ اختیار نہیں تھا کہ کسی کوگولی ماردیں۔وکیل کاکہنا تھا کہ چشم دیدگواہ کانام نہیں اور موت کاوقت نہیں دیاگیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہ وکیل نے دکھانا ہے کہ پوسٹمارٹم رپورٹ 16کی بجائے 17کوبنی ہے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ جس دن رپورٹ حوالہ کی گئی اسی دن بنی، دونوں چشم دیدگواہ موقع پرموجود نہیں تھے، شکیل عباسی ، شبیر عباسی، منیر عباسی اور واجد عباسی کو ملزم نامزدکیا گیا تھا۔

جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ شہر کے دل میں اور دن دیہاڑے واقعہ ہوا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہوٹل کاتنازعہ تھا گولی مارنے کی بجائے دیوانی دعویٰ دائر کردیتے۔ اس دوران ملزمان کے بھائی منیر احمد عباسی نے روسٹرم پرآکربتایا کہ وہ ہوٹل میں ملازم تھا اورمقتول کے ساتھ کوئی جھگڑانہیں تھا، وہ ہوٹل خالی کروانے نہیں آئے تھے، دونامعلوم افراد نے پیچھے سے آکر فائرنگ کی اور فرارہوگئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ واقعہ توہوٹل کے کائونٹر پرہوا، مقتول کے ورثاء کواطلاع کیوں نہیں دی۔ وکیل کاکہنا تھا کہ ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ کرایا پرہوٹل لیاہواتھا اور کوئی خالی کرنے کانوٹس نہیں دیا تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہوٹل کے کسی ملازم کو بطور گواہ پیش کرتے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ ملزمان کی جانب سے جتنے بھی گواہ پیش ہوتے ہیں وہ ان کے جیل میں ہوتے ہوئے ہی پیش ہوتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پگڑی پہن کرملازم ہوٹل کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے ، پگڑی عزت کی علامت ہے ، کسی سویپر یادیگر کسی ملازم کوپیش کرتے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہ رہائشی ہوٹل تھا یاکھانے پینے کا۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ رہائشی ہوٹل تھا۔

اس دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے مدعاعلیہ کے وکیل سردار لطیف کھوسہ کو روسٹرم پر طلب کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیاآپ سمجھتے ہیں کہ تفتیشی نے صییح تفتیش کی ہے،جودرخواست گذارکے وکیل سے سوال کیاوہ آپ سے بنتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیاکیس میں تفتیش داغدار تھی، ہم کمزور تفتیش پر ملزم کوسزانہیں دے سکتے، نااہل، کرپٹ اور سستی کرنے والے تفتیشی افسر کی تحیققات پر ملزم کوسزانہیں دی جاسکتی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ مقتول ہوٹل میں کس مقصد کے لئے گئے تھے۔ سردار لطیف کھوسہ کاکہنا تھا کہ میں قرضہ مانگ رہا تھا، 30لاکھ سیکیورٹی کاتنازعہ تھا، میں قبضہ لینے گیا تھا اور یہ قبضہ دے رہے تھے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیاآپ زبردستی خالی کروانے گئے تھے، کیاکسی عدالت کاحکم تھا۔ سردار لطیف کھوسہ کاکہنا تھا کہ دوسال پہلے کرایہ نامہ ختم ہوگیا تھا،صلح صفائی کرنے گئے تھے توریکارڈ سے بتادیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کالطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کہاں الفاظ ہیں کہ آئیں میں قبضہ دیتا ہوں، زبردستی قبضہ لینے گئے تھے۔

لطیف کھوسہ کاکہنا تھا کہ 6خول برآمد ہوئے ، دوسرے پستول والا مفرورتھا اوربعد میں گرفتارہوا۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ تفتیشی افسر نے دونوں طرف کانقطہ نظر لینا تھا، تفتیشی نے سارے ثبوت شکایت کندہ سے لئے،تفتیشی سارے ثبوت سامنے رکھیں، اللہ جانے اور عدالت جانے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہوٹل میں کتنے بہرے کام کرتے تھے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاسردارلطیف سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایک ملزم کی حدتک آپ کی اسٹوری غلط ثابت ہوئی۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ ملزم شکیل احمد عباسی سے برآمد ہونے والے پستول کہاں جمع ہوا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا پستول عدالت میںپیش کیا، کس گواہ نے پیش کیااورکیا مارک ہوا۔ جسٹس ملک شہزاد کالطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم سوال کرتے ہیں توآپ جواب نہیں دیتے۔ لطیف کھوسہ کاکہنا تھا کہ میں آپ کولے کرچلتاہوں اورریکارڈ دکھاتا ہوں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم اڈیالہ جیل کے سواہرجگہ ساتھ جانے کوتیار ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاسردارلطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں فوجداری کیسز آپ کواپنا استاد سمجھتا ہوں، کیا پستول پیش کرنا ضروری ہوتا ہے کہ نہیں۔ اس پر لطیف کھوسہ کاکہنا تھا کہ ضروری ہوتا ہے۔

لطیف کھوسہ کاکہنا تھا کہ کسی نے نہیں کہ پستول جمع نہیں ہوا۔ جسٹس ملک شہزادکاکہنا تھا کہ کس گواہ نے یہ کہا کہ جوپستول برآمد ہواوہ اِس گواہ سے ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ جوپستول برآمد ہواوہ کہاں پڑا ہے، مجھے دکھائیں گے تومیں مانوں گا، آپ کی ذمہ داری تھی کہ بتاتے یہ پستول ہے اوریہ جمع ہواہے۔ جسٹس ملک شہزاد کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے کیوں عمر قید دی، قتل کامقصد مانا یا نہیں مان، ہائی کورٹ نے کہا آزادانہ طور پرقتل کامقصد ثابت نہیں ہوا، جس ایک کی جان چھوٹ گئی ہے اسے نہ پھنسائیں۔جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ مدعاعلیہ جارح تھے، کیا کیس 302-Cمیں نہیں آتا، مقتول نہ جاتے توواقعہ نہ ہوتا۔ جسٹس ملک شہزادکاکہنا تھا کہ اچانک اشتعال دلایا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایک لفظ بھی گولی سے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ واقعہ ہوا ہے اورایک نے کیاہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ عبید نے وضاحت نہیں دی کہ وہ کہاں کیاکررہا تھا، وہ مدعا علیہ کااسٹارگواہ ہے، ہوٹل کے باہر کرسی بھی نہیں جس پربیٹھاہوا ہو۔

جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایک موبائل فون پر لوگ قتل کردیتے ہیں۔ جسٹس ملک شہزاد کاکہنا تھا کہ ملزمان نہ مقتول کے گھر گئے اور نہ دفتر بلکہ مقتول وہاں گئے، جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ نامعلوم افرادکیوں ہوٹل میں آکرمارتے۔ وکیل بشارت اللہ کاکہنا تھا کہ اس کاشکیل احمد عباسی 20دسمبر2026کوگرفتار ہوا اور ٹرائل کورٹ کی جانب سے بری کرنے پر 30جولائی 2028کو رہا ہوگیا، جبکہ ہائی کورٹ فیصلے کے بعد 16جولائی 2021سے گرفتارہے۔ اس دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کمرہ عدالت میں موجود مقتول کے بیٹے کوروسٹرم پربلایا اورسوال کیا کہ کیاراضی نامہ نہیں ہوسکتا، ہم کوئی دبائو نہیں ڈال رہے ویسے ہی پوچھ رہے ہیں، واقعات ہوتے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ نہ کرے، آئندہ کے لئے اچھے تعلقات بنالیں، اگرآپ کے پاس آجائیں۔ اس پر مقتول کے بیٹے کاکہنا تھا کہ راضی نامہ نہیں ہوسکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ پرچھوڑ دیں۔ اس پر مقتول کے بیٹے کاکہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ پر ہی چھوڑا ہوا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ ٹھیک ہے تشریف رکھیں۔ بینچ نے شکیل احمد عباسی اورشبیر احمد عباسی کی درخواستیں جزوی طور پرمنظور کرتے ہوئے عمر قیدکی سزائوں کو کو 18سال قید میں تبدیل کردیا۔