غزہ (صباح نیوز)ایسے وقت میں جب اسرائیل یہ باور کرا چکا ہے کہ اب مذاکرات صرف گولیوں کے سائے میں ہی ہوں گے، حماس تنظیم نے ایک بار پھر یہ موقف دہرایا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے شدید حملوں کے باوجود مذاکرات کے لیے تیار ہے۔عرب میڈیا کے مطابق حماس کے سیاسی دفتر کے میڈیا ایڈوائزر طاہر نونو نے بدھ کے روز کہا کہ “حماس نے مذاکرات کا دروازہ بند نہیں کیا اور تمام فریقوں کی جانب سے دستخط شدہ معاہدے کی روشنی میں کسی نئے معاہدے کی ضرورت نہیں ہے”۔نونو نے مزید کہا کہ حماس وساطت کاروں اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتی ہے کہ اسرائیل کو جارحیت روکنے، فائر بندی معاہدے پر عمل درآمد کرنے اور معاہدے کے دوسرا مرحلہ شروع کرنے کا پابند بنایا جائے۔ فائر بندی معاہدہ 19 جنوری سے نافذ العمل ہوا تھا۔
حماس نے گذشتہ روز واضح کیا تھا کہ اس نے مذاکرات کے دوران لچک دکھائی۔ تنظیم کے مطابق اس نے امریکی خصوصی ایلچی اسٹیف ویٹکوف کی تجویز پر آمادگی ظاہر کی اور اس کے ساتھ مثبت طریقے سے معاملہ کیا۔ادھر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے زور دیا ہے کہ غزہ کی پٹی پر حملے “محض آغاز” ہے۔ انھوں نے باور کرایا کہ اب مذاکرات ہوں گے تو صرف گولی کے سائے میں ہوں گے۔ادھر اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاتز نے باور کرایا ہے کہ “اسرائیلی فوج اپنی کارروائیاں جاری رکھے گی یہاں تک کہ حماس کو یہ بات سمجھ آ جائے کہ کھیل کے قواعد بدل چکے ہیں اور سے چاہیے کہ تمام یرغمالیوں کو رہا کر دے یا پھر جہنم کے دروازے کھلنے کا سامنا کرے۔مبصرین کے نزدیک اسرائیل کا جنگ کی طرف لوٹ کر آنے کا مقصد حماس کو مجبور کرنا ہے کہ وہ مذاکرات کے دروان مزید رعائتیں پیش کرے۔یاد رہے کہ فائر بندی معاہدہ تین مراحل پر مشتمل ہے۔ اس کا پہلا مرحلہ یکم مارچ کو اختتام پذیر ہو گیا۔ اسرائیل اس پہلے مرحلے میں توسیع اور مزید اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے مطالبے پر ڈٹا ہوا ہے۔ادھر حماس نے یہ مطالبہ مسترد کرتے ہوئے معاہدے کے دوسرے مرحلے کی طرف منتقلی پر زور دیا ہے جیسا کہ مقرر ہے۔ دوسرے مرحلے میں غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کا انخلا اور اسرائیل کے بقیہ تمام زندہ یرغمالیوں کی رہائی مذکور ہے