واشنگٹن (صباح نیوز)امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں زیر تعلیم بھارتی سکالر بدر خان سوری کو امیگریشن افسران نے گرفتار کر لیا ہے اور اس کے وکیل کے مطابق اسے ملک بدری کا سامنا ہے ، امریکی خارجہ پالیسی کے لیے نقصان دہ سمجھنے کے بعد بدر خان سوری کوملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ،امریکی اخبار پولیٹیکو نے رپورٹ کیا کہ امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے بدر خان سوری پر حماس کے ساتھ تعلقات کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر تنظیم کا پروپیگنڈا اور یہود دشمنی پھیلائی تھی،وائٹ ہاوس کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف اسٹیفن ملر کی جانب سے فاکس نیوز کو دیے گئے ڈی ایچ ایس کے بیان میں کسی ثبوت کا حوالہ نہیں دیا گیا،
بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فیصلہ کیا ہے کہ بدر سوری کی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں ملک بدر کرنا ہوگا۔بدر خان سوری کے وکیل نے بتایا کہ سوری اسٹوڈنٹ ویزا پر امریکا میں مقیم ہیں، اور انہوں نے ایک امریکی شہری سے شادی کی ہے، انہیں لوزیانا کے شہر الیگزینڈریا سے حراست میں لیا گیا ہے اور وہ امیگریشن کورٹ میں عدالت کی تاریخ کا انتظار کر رہے ہیں۔وفاقی ایجنٹوں نے انہیں پیر کی رات ورجینیا کے شہر روسلین میں گھر کے باہر سے گرفتار کیا تھااور اسے بتایا کہ حکومت نے اس کا ویزا منسوخ کر دیا ہے۔ سوری جارج ٹاون کے الولید بن طلال سینٹر فار مسلم کرسچن انڈراسٹینڈنگ میں پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو ہیں، جو یونیورسٹی کے اسکول آف فارن سروس کا حصہ ہے،
ان کی گرفتاری کی اطلاع سب سے پہلے پولیٹیکو نے دی تھی۔بدر خان سوری کے وکیل نے ایک ای میل میں کہا کہ اگر تنازعات کے حل پر توجہ مرکوز کرنے والے ماہر اسکالر کو حکومت خارجہ پالیسی کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہے، تو شاید مسئلہ حکومت کا ہے، اسکالر کا نہیں۔جارج ٹاون یونیورسٹی کے ایک ترجمان نے کہا کہ یونیورسٹی کو سوری کی حراست کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی، اور نا ہی اسے سوری کے کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے کا علم ہے۔سوری کے وکیل نے بتایا کہ سوری کی اہلیہ مافیز صالح امریکی شہری ہیں۔جارج ٹاون یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق مافیز صالح کا تعلق غزہ سے ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ الجزیرہ اور فلسطینی میڈیا اداروں کے لیے لکھ چکی ہیں، اور غزہ میں وزارت خارجہ کے ساتھ کام کر چکی ہیں، وکیل نے مزید کہا کہ مافیز صالح کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔جارج ٹاون یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق سوری خود بھی اس سمسٹر میں جنوبی ایشیا میں اکثریت پسندی اور اقلیتی حقوق کے موضوع پر کلاس پڑھا رہے ہیں، اور انہوں نے بھارت کی ایک یونیورسٹی سے امن اور تنازعات کے مطالعے میں پی ایچ ڈی کی ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں ٹرمپ انتظامیہ نے کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم محمود خلیل کو فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں میں حصہ لینے پر گرفتار کرکے ملک بدر کرنے کی کوشش کی تھی، خلیل اپنی نظر بندی کو عدالت میں چیلنج کر رہے ہیں۔ٹرمپ نے بغیر کسی ثبوت کے خلیل پر حماس کی حمایت کا الزام عائد کیا ہے، خلیل کی قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ ان کا حماس سے کوئی تعلق نہیں، جسے امریکا غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ٹرمپ نے الزام عائد کیا ہے کہ فلسطینیوں کے حامی مظاہرین یہودی مخالف ہیں، کچھ یہودی گروہوں سمیت فلسطین کے حامیوں کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے حملے اور فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت پر ان کی تنقید کو ان کے ناقدین کی جانب سے یہود دشمنی کے ساتھ غلط طور پر جوڑ دیا گیا ہے۔
امریکی جج نے بدھ کے روز کہا تھا کہ خلیل کو فی الحال امریکا میں ہی رہنا چاہیے، لیکن انہوں نے فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت پر اپنی گرفتاری کو قانونی حیثیت دینے کو نیو جرسی کی ایک عدالت میں چیلنج کیا ہے۔مین ہیٹن میں مقیم امریکی ڈسٹرکٹ جج جیسی فرمان نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مقدمے کو خارج کرنے کی درخواست کو مسترد کرنے سے انکار کر دیا، لیکن محکمہ انصاف سے اتفاق کیا کہ خلیل کو اس وقت نیو جرسی میں رکھا گیا تھا جب ان کے وکلا نے پہلی بار نیویارک میں ان کی گرفتاری کو چیلنج کیا تھا۔اب یہ نیو جرسی کی عدالت پر منحصر ہے کہ وہ خلیل کی گرفتاری کو غیر آئینی قرار دینے اور اسے ضمانت پر رہا کرنے یا منتقل کرنے کی کوششوں پر فیصلہ کرے۔خلیل کے وکلا کا کہنا ہے کہ ان کی اہلیہ نور عبداللہ لوزیانا میں ان سے ملنے نہیں جا سکتیں، جہاں وہ اس وقت قید ہیں، کیوں کہ وہ 8 ماہ کی حاملہ ہیں اور پہلے بچے کی پیدائش متوقع ہہ