اسلام آباد(صباح نیوز)تمباکو مصنوعات کی غیر قانونی تجارت میں33 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔حکومت تمباکو مصنوعات کو محض محصولات اکٹھا کرنے کا ذریعہ بنانے کے بجائے صحت عامہ کو ترجیح دیتے ہوئے سخت اقدامات اٹھائے۔ تمباکو مصنوعات کی غیر قانونی تجارت سے پاکستان کی معیشت سے سالانہ 770 ارب روپے چوری کئے جا رہے ہیں۔تمباکو مصنوعات کے بڑھتے ہوئے استعمال سے دل اور پھیپھڑوںکے امراض میں اضافہ کے سبب شعبہ صحت کے ذریعے قومی معیشت کو سالانہ 102فیصد نقصان پہنچ رہا ہے۔
ان خیالات کا اظہار ماہرین نے یہاں پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام تمباکو مصنوعات کے انسدادبذریعہ شرح محصولات کے موضوع پر منعقدہ سیمینار و مرکز معلومات کے اجرا کے موقع پر کیا۔ اس موقع پر پاکستان کے پہلے تمباکو کنٹرول معلوماتی ہب کا افتتاح بھی کیا گیا۔ ماہرین نے ڈیٹا پر مبنی پالیسی سازی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے حکومت سے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تمباکو کنٹرول کو مدنظر رکھنے کا مطالبہ کیا۔ ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے افتتاحی خطاب میں تمباکو کنٹرول پالیسی پر بحث کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وزارت خزانہ کو پیش کی گئی ہر سفارش پالیسی اصلاحات کے امکانات کو بڑھاتی ہے۔ ایس ڈی پی آئی اور اس کے شراکت دار ادارے تمباکو کنٹرول پر مسلسل کام کر رہے ہیں اور معلوماتی ہب اس سمت میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نالج ہب تحقیقی مواد، اعداد و شمار اور تجزیاتی رپورٹس کو یکجا کر کے پالیسی سازوں، محققین اور سول سوسائٹی کو دے گا تاکہ تمباکو کنٹرول کیلئے موثر اقدامات کئے جا سکیں۔
ایس ڈی پی آئی کے سینئر محقق ڈاکٹر وسیم افتخار جنجوعہ نے معلوماتی مرکز کی بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان اس عالمی نیٹ ورک کا حصہ بن گیا ہے جہاں پہلے ہی بھارت، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور دیگر ممالک میں نو نالج ہب کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے تمباکو کنٹرول کے لئے ایک مربوط پالیسی پلیٹ فارم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور مشرق وسطی و شمالی افریقہ کے خطے میں تمباکو کنٹرول کیلئے مستند ڈیٹا اور تحقیقی شواہد کو یکجا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سینٹر فار ہیلتھ پالیسی اینڈ انوویشن کے سربراہ سید واسف نقوی نے تمباکو معلوماتی مرکز کے تحقیقی ذخیرے، پالیسی سفارشات اور استعداد کار بڑھانے کے وسائل کو اجاگر کیا۔ ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ساجد امین جاوید نے کہا کہ تمباکو ٹیکسیشن کو آمدنی بڑھانے کے بجائے عوامی صحت کے تحفظ کی پالیسی کے طور پر اپنانا چاہئے۔ ڈاکٹر وسیم سلیم نے کہا کہ جس طرح شوگر سویٹینڈ بیوریجز پر ٹیکس صحت عامہ کا اقدام ہے اسی طرح تمباکو پر ٹیکس بھی ایک موثر پالیسی ہے۔ انہوں نے تمباکو کی غیر قانونی تجارت کے باعث 770 ارب روپے سالانہ کی ٹیکس چوری اور جی ڈی پی کے 1.2 فیصد نقصان پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک سال میں سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں تین گنا اضافے سے سگریٹ کی مجموعی کھپت میں 19.2 فیصد کمی واقع ہوئی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ زیادہ ٹیکس عائد کرنے سے تمباکو نوشی میں کمی آتی ہے۔ نیشنل ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے سربراہ برائے تمباکو کنٹرول ڈاکٹر مطیع الرحمن نے کہا کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ تمباکو پیدا کرنے والے کسانوں کیلئے ایک جامع حکمت عملی اپنائے تاکہ وہ متبادل فصلوں کی طرف جا سکیں۔
ایس پی ڈی سی کے منیجنگ ڈائریکٹر آصف اقبال نے کہا کہ غیر قانونی تجارت ایک سنگین چیلنج ہے جس کی کل غیر قانونی تجارت 33 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ عالمی ادارہ صحت پاکستان کی ڈیزیز کنٹرول کلسٹر لیڈ ڈاکٹر نارہ نے اختتامی کلمات میں کہا کہ نالج ہب تحقیقی مواد، اعداد و شمار اور تجزیاتی رپورٹس کو یکجا کر کے پالیسی سازوں، محققین اور سول سوسائٹی کو دے گا تاکہ تمباکو کنٹرول کے لئے موثر اقدامات کئے جا سکیں۔