مقبوضہ بیت المقدس (صباح نیوز)اسرائیل نے کہا ہے کہ حماس نے ابھی تک ان 34 یرغمالیوں کی صورتحال کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کیں، جن کے بارے میں حماس نے کہا تھا کہ وہ ممکنہ تبادلے کے معاہدے کے پہلے مرحلے میں ان کی واپسی کے لیے تیار ہے۔ جرمن ٹی وی کے مطابق قطر، مصر اور امریکہ کئی ماہ سے غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ایک معاہدے پر پہنچنے کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن دونوں متحارب فریق ایک دوسرے پر مذاکرات ناکام بنانے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔حالیہ دنوں میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثوں نے بالواسطہ مذاکرات دوبارہ شروع کیے ہیں جبکہ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو حماس کی جانب سے ان 34 اسرائیلی یرغمالیوں کی موجودہ صورتحال کے بارے میں کوئی تصدیق یا تبصرہ موصول نہیں ہوا، جن کے نام فہرست میں شامل کیے گئے ہیں۔بیان میں مزید کہا گیا، ”یرغمالیوں کی فہرست … حماس کی جانب سے اسرائیل کو فراہم نہیں کی گئی بلکہ اصل میں اسرائیل نے یہ فہرست جولائی 2024 میں ثالثوں کو دی تھی۔اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔اتوار پانچ جنوری کو رات گئے حماس کے ایک اعلی عہدیدار نے خبر رساں ادارے کو بتایا تھا کہ حماس نے فلسطینی قیدیوں اور اسرائیلی یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے کے پہلے مرحلے کے طور پر اسرائیل کی جانب سے پیش کردہ فہرست میں سے 34 یرغمالیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حماس کے اس عہدیدار نے کہا کہ ابتدائی تبادلے میں تمام خواتین، بچوں، بزرگوں اور بیمار افراد کو شامل کیا جائے گا جو اب بھی غزہ میں ہیں۔ لیکن حماس کو ان کی حالت کا تعین کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔انہوں نے کہا کہ حماس نے 34 یرغمالیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ، تاہم اس گروپ کو اغوا کاروں سے بات چیت کرنے اور زندہ اور مرنے والوں کی شناخت کے لیے ایک ہفتے کے وقفے کی ضرورت ہے۔عالمی خبر رساں اداریکے مطابق سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے دوران، جس نے غزہ کی جنگ کا آغاز کیا تھا، فلسطینی عسکریت پسندوں نے 251 اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا، جن میں سے 96 اب بھی غزہ میں موجود ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان میں سے 34 ہلاک ہو چکے ہیں۔اسرائیلی مہم چلانے والے گروپ ”ہوسٹیجز اینڈ مسنگ فیملیز فورم نے پیر کے روز یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک ‘جامع معاہدے کا مطالبہ کیا۔بیان میں کہا گیا ہے، ”ہم جانتے ہیں کہ نصف سے زیادہ افراد اب بھی زندہ ہیں اور انہیں فوری بحالی کی ضرورت ہے جبکہ قتل ہونے والے افراد (کی لاشوں) کو مناسب تدفین کے لیے واپس بھیجا جانا چاہیے۔
خیال رہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد نومبر 2023 میں صرف ایک بار جنگ بندی ہوئی تھی، جس میں اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے 240 فلسطینیوں کے بدلے 80 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا گیا تھا۔دوحہ میں مذاکرات کے تازہ دور کے بارے میں نہ تو اسرائیل اور نہ ہی حماس نے کوئی ٹھوس تفصیلات فراہم کی ہیں، لیکن ہفتے کے روز اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے ایک یرغمالی کے رشتہ داروں کو بتایا تھا کہ مذاکرات جاری ہیں۔پیر کے روز امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا جائے گا لیکن ممکنہ طور پر 20 جنوری کو امریکی صدر جو بائیڈن کے عہدہ چھوڑنے کے بعد۔ ،سرائیل کے بائیں بازو کی جانب جھکاو رکھنے والے اخبار ہارٹز نے پیر کے روز خبر دی کہ حماس کے ساتھ مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں اور اسرائیلی فیصلہ ساز پرامید ہیں کہ اگلے چند دنوں میں معاہدے کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔کچھ اسرائیلی نیوز ویب سائٹس نے خبر دی ہے کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ دوحہ میں مذاکرات میں شامل ہو رہے ہیں۔