بھارت کی شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کرنے میں عدم دلچسپی


نئی دہلی (صباح نیوز)بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے بھارت سے سفارتی سطح پر شیخ حسینہ کی حوالگی کے لیے باضابطہ درخواست کی ہے۔نئی دہلی نے درخواست موصول ہونے کی تصدیق کی ہے تاہم اس پر تبصرہ نہیں کیا۔بھارتی ماہرین کے مطابق شیخ حسینہ کی بنگلہ دیش حوالگی کا معاملہ پیچیدہ ہوگا۔ طالبِ علم رہنما ناہید اسلام کے مطابق بھارت اگر سابق وزیرِ اعظم کو حوالے نہیں کرتا تو وہ بنگلہ دیش میں جمہوریت کیخلاف کھڑا ہوگا۔شیخ حسینہ کو رواں برس جولائی اور اگست میں احتجاجی تحریک کے خلاف کریک ڈاون کے علاوہ اپنے دورِ اقتدار میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کا سامنا ہے۔امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق عوامی لیگ کے ایک سینئر رہنما کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ پر الزامات بے بنیاد ہیں۔

بنگلہ دیش کی جانب سے سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی حوالگی کے لیے باضابطہ درخواست موصول ہونے کے بعد بھی بھارت نے اس پر عمل در آمد کرنے کے تیار نظر نہیں آتا۔رواں برس اپنی حکومت کے خلاف ہونے والے احتجاج کے بعد شیخ حسینہ مستعفی ہو کر بنگلہ دیش سے بھارت آگئی تھیں اور اس کے بعد سے ان کا قیام نئی دہلی میں ہے۔گزشتہ ہفتے بنگلہ دیش کے مشیر برائے خارجہ امور محمد توحید حسین نے مقامی رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کی عبوری حکومت نے بھارت کو باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا تھا کہعدالتی عمل کے لیے شیخ حسینہ کی حوالگی درکار ہے۔بھارت کی وزارتِ خارجہ نے شیخ حسینہ کی حوالگی کے لیے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی درخواست موصول ہونے کی تصدیق کردی تھی تاہم اس پر کسی تبصرے سے گریز کیا۔بھارت میں خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کو اتنی آسانی کے ساتھ بنگلہ دیش واپس نہیں بھیجا جاسکتا۔بنگلہ دیش میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر پنک راجن چکرورتی نے واٹس ایپ کے ذریعے وی او اے کو بتایا کہ جب فوج نے شیخ حسینہ کو ان کی حفاظت کے پیش نظر بھارت بھیجا تھا تو ان پر کوئی قانونی مقدمہ نہیں تھا۔ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ بھارت کا شیخ حسینہ کو واپس بنگلہ دیش کی تحویل میں دینا ایک پیچیدہ معاملہ بن گیا ہے کیوں کہ عدالتی عمل کے لیے جرائم کے ٹھوس شواہد درکار ہوتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ حوالگی کے دو طرفہ معاہدے میں سیاسی استثنا کے ساتھ ساتھ تحفظ اور منصفانہ برتاو کی شقیں بھی رکھی گئی ہیں۔ جب تک یہ شرائط پوری نہیں ہوتیں، حوالگی سے انکار کیا جاسکتا ہے۔بنگلہ دیش کی قائم مقام حکومت سے تعلق رکھنے والے حکام کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ نے اپنے 15 سالہ دورِ حکومت میں اقتدر پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے کئی بڑے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔عبوری حکومت میں بطور مشیر ذمے داریاں ادا کرنے والے طالب علم رہنما ناہید اسلام نے وی او اے سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں حقیقی جمہوریت کے لیے شیخ حسینہ کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔ناہید اسلام نے رواں برس جولائی اور اگست میں ہونے والے طلبہ کے پرامن مظاہروں کا حوالہ دیا۔ ان مظاہروں نے سیکیورٹی فورسز کے کریک ڈاون کے بعد پر تشدد احتجاج کی شکل اختیار کرلی تھی۔بھارت کی وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ انہیں بنگلہ دیش کی جانب سے شیخ حسینہ کی حوالگی کا خط مل گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جولائی اور اگست کے مظاہروں میں ایک ہزار ہلاکتیں ہوئیں جن میں طلبہ، دیگر مظاہرین اور بچے بھی شامل تھے۔ ان کے بقول شیخ حسینہ ان سب کیسز میں مرکزی ملزم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ شیخ حسینہ پر بنگلہ دیش میں مقدمہ چلانا چاہیے اور ان کے اقدامات کے لیے جوابدہ بنانا چاہیے۔

بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے لیے بنائے گئے انٹرنیشنل کرائم ٹریبیونل سے شیخ حسینہ اور ان کے متعلقین کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔ ان کے خلاف 2024 میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران قتلِ عام کی منصوبہ بندی اور اپنے 15 سالہ دورِ اقتداد میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔اسٹوڈنٹ لیڈر ناہید اسلام کا کہنا ہے کہ رواں برس احتجاجی مظاہروں کے دوران جرائم کے علاوہ شیخ حسینہ اپنی حکومت میں کئی غیر قانونی اقدامات کی بھی ذمے دار ہیں۔وی او اے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شیخ حسینہ کی حکومت ہزاروں افراد کو لاپتا کرنے اور ماورائے عدالت قتل کرنے کے جرائم میں ملوث ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی حکومت کے دوران بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کی بھی ملزم ہیں۔بنگلہ دیش کے انگریزی اخبار روزنامہ ڈھاکہ ٹریبیون کے مدیر ظفر سبحان کا کہنا ہے کہ جو بھی انصاف کو اہم سمجھتا ہے اس کے لیے شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ نہ صرف یہ کہ بالکل جائز ہے بلکہ اس کے نزدیک یہ غیر متنازع اور قابل قبول مطالبہ ہوگا۔بذریعہ ای میل وی او اے کو اپنے جواب میں ظفر سبحان نے کہا کہ اپنے خلاف اٹھنے والی احتجاجی تحریک کے خلاف سنگین جرائم کے ارتکاب کے علاوہ شیخ حسینہ کو اختیارات کے غلط استعمال، جبری گمشدگی، ماورائے عدالت قتل اور قومی خزانے کی لوٹ مار جیسے شدید نوعیت کے الزامات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیخ حسینہ کے ٹرائل سے یہ پیغام ملے گا کہ اگر کوئی اقتدار میں بھی ہو تو قانون سے بالاتر نہیں ہو جاتا۔شیخ حسینہ نئی دہلی میں مقیم ہیں اور مبینہ طور پر انہیں بھارتی حکومت نے رہائش فراہم کی ہے۔ انہوں نے تاحال اپنی حوالگی کی درخواست پر کوئی ردِ عمل نہیں دیا ہے۔تاہم شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے ایک سینئر رہنما نے ان کے خلاف الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔عوامی لیگ کے آرگنائزنگ سیکریٹری سیف العالم چوہدری نے وی او اے کو ایک واٹس ایپ پیغام میں کہا کہ شیخ حسینہ کے خلاف جبری گمشدگی، ماورائے عدالت قتل اور دیگر نام نہاد بے ضابطگیوں کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ پانچ اگست کے بعد سے طویل وقت گزرنے کے باوجود ان کے یا ان کی حکومت کے خلاف کسی خاص الزام میں کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔

سابق بنگلہ دیشی سفارت کار خلیل الرحمان کا کہنا ہے کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شیخ حسینہ نے سنگین جرائم کیے ہیں جنھیں ساری دنیا نے دیکھا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش کو انہیں جوابدہ بنانا ہوگا کیوں کہ حکومت ٹریبیونل کی ہدایات پر عمل درآمد کی بھی پابند ہے۔خلیل الرحمان بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کے سینئر نمائندے بھی ہیں۔ انہوں نے واٹس ایپ پیغام کے ذریعے وی او اے کو بتایا کہ امید ہے بھارت کی حکومت ہمارے ساتھ تعاون کرے گی۔ دونوں ممالک کے درمیان ملزمان کی حوالگی کے معاہدوں کا احترام ہونا چاہیے۔طالبِ علم رہنما ناہید اسلام نے کہا کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت شیخ حسینہ کی واپس وطن لا کر ان کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے ہر قانونی اور سفارتی راستہ اختیار کرے گی۔انہوں نے کہا کہ بھارت کو شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کرکے یہاں شروع ہونے والے جمہوری عمل میں تعاون کرنا چاہیے۔ اس طرح دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کو بھی تقویت ملے گی۔ان کے بقول اگر بھارت شیخ حسینہ کو حوالے نہیں کرتا تو وہ بنگلہ دیش میں فاشزم کا ساتھ دے گا اور جمہوریت کی مخالفت کرے گا۔

بنگلہ دیش میں خدمات انجام دینے والے امریکہ کے ایک سابق سفارت کار جان ڈینیلووکز کا کہنا ہے کہ بھارت کے انکار کے باوجود بنگلہ دیش کے لیے شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ جاری رکھنا بہت اہم ہوگا۔وی او اے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس طرح یہ یاددہانی ہوتی رہے گی کہ بنگلہ دیش انصاف کے حصول کی کوشش جاری رکھے گا۔ جب کہ بھارت کو دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا کہ وہ بنگلہ دیشی عوام کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے یا اس کی معزول ڈکٹیٹر کا ساتھ دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کو شیخ حسینہ کے دیگر وفادار ساتھیوں کی حوالگی کے لیے بھارت پر دباو بڑھانا چاہیے جنہوں نے سرحد پار پناہ لے رکھی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت ان مفرور افراد کی حوالگی کے لیے تیار نہیں ہوتا تو اس کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوگا کیوں کہ وہ خود کو ایک بڑی طاقت کے طور پر پیش کرتا ہے۔