دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا فیصلہ یکطرفہ، (ن) لیگ چاہتی ہے اسے کوئی کچھ نہ پوچھے، بلاول بھٹو

لاڑکانہ (صباح نیوز)چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن)سمجھتی ہے ان کے پاس دو تہائی اکثریت ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں،  ان کے پاس اتنی اکثریت نہیں کہ وہ یکطرفہ اور متنازع فیصلے کریں۔ لاڑکانہ کے علاقے رتوڈیرو میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عوام کے مسائل حل کرنا اولین ترجیح ہے، ہمارے ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ مسائل جتنے بھی ہوں، کم مسائل میں بھی محنت کر کے اپنے عوام کے مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوام کے مسائل اور ایشوز کو اہمیت دی ہے، پاکستان کے عوام آج بھی بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہیں، موجودہ سیاسی صورتحال عوام کے سامنے ہے، عوام معاشی، امن و امان اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ذاتی اختلافات کو چھوڑ کر عوامی مسائل پر توجہ دیں اور عوام کی مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کریں، پاکستان پیپلز پارٹی کوشش کر رہی ہے کہ کم وسائل کے ساتھ عوام کے بڑے مسائل حل کریں ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں وفاق کا رویہ ایسا ہی رہتا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان معاہدہ ہوا، ہم نے حکومت سازی میں ان کے وزیر اعظم کو ووٹ دیا، ان کے ساتھ طے ہوا تھا کہ چاروں صوبوں کی پی ایس ڈی پی کو مل کر بنائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جب ایسا نہ ہوا تو یہ بھی وعدہ کیا گیا کہ سندھ، بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈنگ دی جائے گی لیکن ابھی تک پیپلز پارٹی کے ساتھ معاہدہ پر درست عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے، کوئی بھی صوبہ ہو اسے اس کا حق ملنا چاہیے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم بامعنی مذاکرات سے آگے بڑھیں گے۔ ایک اور سوال کے جوا ب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت کے پاس یکطرفہ فیصلے کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے، حکومت کے پاس 90ء کی دہائی والی دو تہائی اکثریت نہیں ہے، موجودہ صورتحال میں حکومت کے پاس دوتہائی اکثریت سے فیصلے کرنا کا مینڈیٹ تو ہے لیکن یکطرفہ کوئی بھی فیصلہ کرنے کا مینڈیٹ حاصل نہیں ہے وہ بھی ایک ایسا یکطرفہ فیصلہ جو متنازع ہو۔ انہوں نے حکومت سے کہا کہ اگر آپ نے کوئی منصوبہ کامیاب بنانا ہے تو مل جل کر فیصلے کرنے ہوں گے، ایک زمانہ تھا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا یکطرفہ فیصلہ کیا گیا تھا، آج کالا باغ ڈیم کہاں ہے؟، انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس کسی بھی یکطرفہ فیصلے پر عملد درآمد کرانا ممکن نہیں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ تاثرغلط ہے کہ کالاباغ ڈیم ایشوپرصوبوں کامؤقف مختلف تھا، نہریں نکالنے کافیصلہ بھی کالاباغ ڈیم کی طرح یکطرفہ ہے، یہ بات سیکھ چکا ہوں حکومت سے کام کیسے نکلواناہے، امیدہے ہماری شکایات کوسنجیدہ لیاجائیگا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کامؤقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے، حکومت نے کہاتھا آئی ٹی سیکٹرکومضبوط بناکرکثیرزرمبادلہ حاصل کریں گے لیکن ان کی سیاست موٹروے سے شروع ہوکرمیٹروپرختم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کوجدیدعلوم سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے، کل گڑھی خدابخش میں ہماراتاریخی جلسہ ہوا، پیپلزپارٹی کے کارکن17 سال بعد بھی بی بی کے بیانیے کے ساتھ ہیں، عوام کے مسائل کوحل کرناہماری اولین ترجیح ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے سب کوکام کرناچاہیے، چاہتے ہیں تمام صوبوں کوان کاحق ملے،صوبوں کے حوالے سے جووعدے کیے گئے تھے ان پرعمل کیاجائے، اکٹھے بیٹھ کرہی صوبوں کے مسائل کوحل کیاجاسکتاہے۔ ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ عوام چاہتے ہیں ان کے نمائندے مسائل حل کریں۔ یکطرفہ فیصلہ کرنے کا حق حکومت کے پاس نہیں ہے، باہمی مشاورت اور بامعنی مذاکرات سے ہی صوبوں کے مسائل حل کرسکتے ہیں، (ن) لیگ سمجھتی ہے کہ ان کے پاس دوتہائی اکثریت ہے اورپوچھنے کی ضرورت نہیں، (ن) لیگ نے کامیابی سے حکومت کرنی ہے تواتفاق رائے سے فیصلے کرے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کسی ایک صوبے کی جماعت نہیں ہے، ہم وفاق کی نمائندہ جماعت ہیں اوراس کومضبوط کریں گے، حکومت ایشوزپرتمام جماعتوں کی رائے کومدنظررکھے،کالاباغ ڈیم کے خلاف احتجاج سندھ سے نہیں خیبرپختونخواسے شروع ہوا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ اب مجھے بتائیں کہ پاکستان کے انٹرنیٹ کیبل میں ایسا کیا ہے کہ سمندر کی مچھلیاں صرف پاکستان کی انٹرنیٹ کیبلز کھاتی ہیں، وہ بھی جب اسلام آباد میں کوئی دھرنا ہو۔ان کا کہنا تھا کہ دہشتگرد پانی بھی پیتا ہے، سڑک بھی استعمال کرتا ہے، تو وہ باقی چیزیں بھی بند کردیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے وفاقی حکومت اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کمیٹی تشکیل دی تھی کہ ہماری سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس سے قبل حکومت کے ساتھ انگیج کیا جائے اور جو مسائل ہیں، ان کو حل کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ ہم سی ای سی کے سامنے جب وہ رپورٹ دیں تو وہ مثبت رپورٹ ہو اور اس کا کوئی نتیجہ نکلے تو اس سلسلے میں کل ہماری اجلاس ہوا اور اس میں صدر زرداری سے یہ درخواست کی کہ ہم یوم کشمیر کے فورا بعد اپنی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے، تو ہم نے وہ فیصلہ کیا۔