اسلام آباد(صباح نیوز)سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ ملکی سطح پر مختلف سیاسی و سماجی مہمات میں جمعیت کا بھرپور کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے بنگلہ دیش نامنظور تحریک ہو، تحریکِ ختمِ نبوت ہو یا پھر آمریت کے خلاف ”طلبہ بیدار ہو” جمعیت نے صف اول کا کردار ادا کیا ہے۔ جمعیت نے پورے ملک میں خدمت طلبہ کی بنیاد پر ملک بھر میں یونین انتخابات میں کامیابیاں سمیٹیں ،ان خیالات کا اظہار سراج الحق نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں اسلامی جمعیت طلبہ کے زیرِ اہتمام ایجوکیشن ایکسپو 2024 کے شرکا سے خطاب کرتے ہوے کیا، اس موقع پر امیر جماعت اسلامی اسلام آباد انجینیر نصراللہ رندھاوا، انجمن تاجران پاکستان کے صدر محمد کاشف چوہدری، اسلامی جمعیت طلبہ کے قائدین بھی موجود تھے، سراج الحق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان میں ایک نعمت کے طور پر موجود ہے جو نوجوانوں کو اسلام اور دین سے جوڑتی ہے اور شعوری طور پر طلبا میں اس احساس کو اجاگر کرتی ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا للہ، اسلامی جمعیت طلبہ تعلیمی اداروں میں نا صرف ایک امید کی کرن ہے بلکہ ملک اور قوم کی روشن مستقبل کی نوید بھی ہے، نوجوان نسل کو جدید دور کی ضروریات کے پیش نظر اس سے ہم آہنگ کرتے ہوئے مستقبل کی پیش قدمی کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلامی جمعیت طلبہ، طلبہ کی ایک تنظیم ہے جو پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اسلامی اقدار کی ترویج کے لیے کوشاں ہے جس کا قیام 23 دسمبر 1947 کو عمل میں آیا تھا۔
جمعیت کے پہلے صدر یعنی ناظم اعلی ظفر اللہ خان کے مطابق انھوں نے 1945 میں ایک ایسی تنظیم کی ضرورت کو محسوس کیا جو اسلامی خیالات رکھنے والے طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے 50 طلبہ کو اکٹھا کیا اور مجلسِ تعمیرِ افکارِ اسلامی کے پرچم تلے ان کی اسلامی خطوط پر ذہن سازی کی۔ مئی 1947 میں متحدہ ہندوستان (پاک و ہند) سے طلبہ دارالسلام پٹھان کوٹ میں جمع ہوئے جہاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پورے خطہ سے اسلامی ذہن رکھنے والے طلبہ کا ایک اجتماع اگست کی تعطیلات میں دہلی میں منعقد کیا جائے گا۔ مگر اس اجلاس سے قبل ہی 3 مئی 1947 کو ہندوستان کی تقسیم کے منصوبے کا اعلان کر دیا گیا جس کے باعث اس اجتماع کا انعقاد ناممکن ٹھہرا۔14 اگست 1947 کو برِصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے جس نظریہ کے تحت لازوال قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں مملکت پاکستان کی بنیاد رکھی تھی ۔ سابق امیرجماعت نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد ہم نے دو قومی نظریہ، علامہ محمد اقبال کی فکر اور قائد اعظم محمد علی جناح کے رہنمااصولوں اور آزادی کے اعلی و ارفع مقصد کو جلدنظراندازکر دیا۔ پاکستان کو ایک قوم پرست اور سیکولر ریاست بنانے کی مہم شروع ہو گئی جس سے نوزائیدہ اسلامی ریاست کا نظریاتی تشخص خطرے میں پڑ گیا۔ان حالات پر غور و فکر کرنے کی غرض سے پورے پاکستان سے 25 طلبہ لاہور میں جمع ہوئے اورمولانا مودودی کی رہنمائی میں 23 دسمبر 1947 کو اسلامی جمعیت طلبہ کی بنیاد رکھی گئی۔سراج الحق نے کہا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کا نصب العین اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق انسانی زندگی کی تعمیر کے ذریعے رضائے الہی کا حصول قرار پایا۔ یہ حقیقی معنوں میں انسانی زندگی کا ”نصب العین” تھا۔ یہ ”نصب العین” اپنے اندر پورا ایک فلسفہِ زندگی لیے تھا،جس کی بحیثیت مسلمان اللہ نے ایک مسلم کو ذمہ داری سونپی تھی ۔اس ” نصب العین” کے تحت اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنے جس پروگرام اور لائحہ عمل کے تحت 75 سال اپنی مملکت اور اپنے وجود کا لوہا منوایا وہ پانچ نکات پر مشتمل ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے اور اس مقصد اور مشن کے لیے رب کائنات نے بنی نوع انسان کو پیدا فرمایا ہے۔جمعیت تمام علاقائی، لسانی، ملکی تعصبات سے بالاتر ہو کر طلبہ کو صرف دین اسلام کی تعلیمات کو سمجھنے اپنانے اور اس کے مطا بق زندگی گزارنے کی دعوت دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام کی دعوت کو شعوری طور پر قبول کرنے والے طلبہ کو جمعیت کے پلیٹ فارم پر منتظم کرنا ایک نظریاتی تنظیم کے بغیر ممکن نہیں.۔ پھرجمعیت کے پروگرام کا تیسرا نقطہ اپنے کارکنان کی قرآن و سنت کی روشنی میں روحانی، اخلاقی، جسمانی، جسمانی سیاسی اور سماجی تربیت کرنا ہے تاکہ وہ معاشرے کا ایک کارآمد فرد بن سکے۔ جمعیت طلبہ کی تنظیم تعلیمی دنیا سے جڑے مسائل کو حل کروانے کی جدوجہد کرکے پاکستان میں اسلامی نظام تعلیم کے نفاذ کیلئے کوشاں رہتی ہے۔سراج الحق نے کہا کہ اسلامی معاشرے کا قیام جمعیت کے پروگرام کا آخری نکتہ پاکستان میں اسلامی معاشرے کا قیام کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنا ہے ۔پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا کر اسے اقبال کے خوابوں کی تعبیردینا پاکستان کے قیام کے ادھورے مقاصد کو تکمیل دیناہے۔