دوستوں کی محفل میں ایک دردِ دل رکھنے والے صاحب بڑے پرجوش انداز میں کہہ رہے تھے کہ کسی مہذّب معاشرے میں کوئی سیاستدان یا پبلک فگر میڈیا پر اس طرح سرِ عام جھوٹ بولے تو پھر اس کے بعد یا وہ معافی مانگ کر گوشہ نشینی اختیار کرے گا یا ساری عمر طعن و تنقید کا جواب دیتا رہے گا۔ مہذّب ملکوں میں اتنا بڑا جھوٹ بولنے والے کا سیاسی کیرئیر ختم ہوجاتا ہے۔ مگر یہاں ایک سابق گورنر اور ایک سابق وزیر ڈنکے کی چوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں اور پھر کوئی ثبوت نہ ہوتے ہوئے بھی اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُن کی بات بے بنیاد ہے وہ اپنے جھوٹ پر قائم رہتے ہیں مگر عوام ان کے جھوٹ پر نہ ان کا محاسبہ کرتے ہیں اور نہ ہی برا مناتے ہیں۔ یہ اخلاقی گراوٹ کی پست ترین سطح کی نشانی ہے۔
اس نقطۂ نظر کے حمایت میں ایک دو اور صاحبان نے بھی باتیں کیں جو امریکا کے سابق صدر کلنٹن کی کذب بیانی پر اس کے کڑے محاسبے کی مثالیں دیتے رہے کہ کس طرح عوام کے سامنے ایک جھوٹی بات کہنے پر دنیا کے طاقتور ترین شخص کو قوم نے کٹہرے میں کھڑا کردیا اور وہ اپنے اس جرم کی وجہ سے کئی روز تک پوری دنیا کے سامنے ذلیل وخوار ہوتا رہا اور قوم سے معافیاں مانگتا رہا۔ یہ ہوتا ہے زندہ قوموں کا چلن۔ مگر مردہ اور بے حس قومیں ایسے جرائم کا نہ نوٹس لیتی ہیں اور نہ ہی برا سمجھتی ہیں۔ ایک سابق سفارتکار نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ آج ہمارے زوال کی بڑی وجہ اقتصادی نہیں اخلاقی ہے۔ اخلاقی گراوٹ ہماری بربادی کا سب سے بڑا سبب ہے جس کی جانب کسی پارٹی، کسی راہنما، کسی عالم کسی معلّم، کسی رائٹر یا کسی اخبار یا تجزیہ کار کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ یعنی کارواں کے دل سے احساسِ زیاں ہی جاتا رہا ہے۔
محفل میں بیٹھے ہوئے ایک اور صاحب نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ایک قومی راہنما کو جھوٹی اور بے بنیاد بات ہرگز نہیں کرنی چاہیے، یہ بلاشبہ ایک مذموم فعل ہے مگر کیا اقتدار کے ایوان، حق وصداقت کے نور سے چمک رہے ہیں؟ کیا اختیار واقتدار کے میدانوں میں سچائی کے چمنستان کھلے ہوئے ہیں؟ وہاں بھی جھوٹ اور مبالغے کی حکمرانی ہے۔ آپ سیاسی ورکروں اور صحافیوں کے خلاف درج ہونے والے مقدمات کی ایف آئی آرز پڑھ لیں توآپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے کہ کیا ریاست اپنے باشندوں کے خلاف اس طرح کے بے بنیاد کیس بناتی ہے۔
کیا ریاست اتنی سنگدل ہوتی ہے؟ ریاست تو چادر اور چار دیواری کی حفاظت کرتی ہے مگر یہاں تو چادر اور چار دیواری کا تقدس ہر روز پامال کیا جارہا ہے۔ عام ورکروں کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ وہ تو چھوڑ ہی دیں، قومی اسمبلی کے منتخب ممبران کی دہائیاں اور چیخ وپکار ہی سن لیں۔ جب کسی معزّز شخص کی عزّت پر ہاتھ پڑتا ہے اور اسے پامال کیا جاتا ہے تو وہ قدرتی طور پر بدلہ لینا چاہتا ہے اگر ریاستی اہلکاروں سے بدلہ نہیں لے سکتا تو پھر ریاست سے بغاوت پر اتر آتا ہے۔ اچھی حکمرانی وہ ہوتی ہے جس میں ریاست پیار اور شفقت سے اور سمجھانے بجھانے سے، تھوڑی بہت ڈانٹ ڈپٹ سے، تھوڑی سی تنبیہہ سے، اور تھوڑی سے وارننگ اور کونسلنگ کے ذریعے باغیوں کے دلوں سے نفرت اور مخالفت کی شدّت کم کی جاتی ہے لیکن اگرحامی مخالف بنتے جائیں اور ان کی مخالفت نفرت میں بدلتی جائے تو پھر حکمرانوں کی نیندیں حرام ہوجانی چاہئیں، انھیں اپنے طرزِ حکمرانی پر نظرثانی کرنی چاہیے اور درباری خوشامدیوں کے بجائے ملک سے محبت کرنے والے صاحبانِ دانش سے مشاورت کرنی چاہیے اور اس مشاورت کی روشنی میں اپنے طرزِ عمل اور پالیسیوں میں تبدیلی لانی چاہیے۔
محفل میں موجود ایک اور صاحبِ نظر نے ملک کی مجموعی صورتِ حال کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا کہ اس وقت بلوچستان کے عوام میں بے چینی ہے، بلوچستان اور کے پی میں دہشت گردی کے ناگ نے پھر سر اٹھا لیا ہے اور ہر روز سیکیوریٹی فورسز کے افسروں اور جوانوں کی قیمتی جانیں ضایع ہورہی ہیں آزاد کشمیر جیسے حسّاس علاقے میں بھی بے چینی ہے اور بڑی تعدا میں لوگ سڑکوں پر ہیں، جغرافیائی صورتِ حال یہ ہے کہ وطنِ عزیز کو کئی اطراف سے دشمنوں نے گھیرا ہوا ہے۔ ان حالات میں چاہیے تو یہ تھا کہ گھر (ملک) کے تمام بڑے اکٹھے ہوکر سر جوڑتے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کی قیادت، عدلیہ کی قیادت اور تمام سروس چیفز سر جوڑ کر بیٹھتے شکوے شکایئیں سامنے لاتے سب کی مشاورت کے ساتھ آئین کا حلیہ درست کرتے اور ملک کو ایسا روڈ میپ دیتے جس سے قوم کو امیّد کی روشنی نظر آتی۔ مگر حالات کی بہتری کی جانب کیا توّجہ ہوگی، یہاں تولگتا ہے کہ کسی کو حالات کی سنگینی کا ہی احساس نہیں ہے۔
حال ہی میں بیرونِ ملک سے آنے والے ایک صاحب نے بڑے تشویشناک لہجے میں پوچھا کیا اصلی یا ظاہری حکمرانوں کو اس بات کا احساس ہے کہ صرف بیروزگار نوجوان ہی نہیںانتہائی اعلیٰ jobs چھوڑ کو مختلف شعبوں کے انتہائی قابل افراد ملک سے باہر جارہے ہیں، کیا ملک کے اس نقصان کا کسی کو اندازہ ہے؟ انھوں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میں نے بہت سے پروفیشنلز سے پوچھا ہے کہ وہ کس لیے ملک چھوڑ کر آئے ہیں؟ زیادہ تر نے ایک ہی جواب دیا ہے کہ جب شہریوں کو ریاست کے کسی بھی ادارے سے انصاف ملنے کی توقع نہ رہے تو انسان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگتا ہے، کمزور معیشت برین ڈرین کی وجہ نہیں ہے عدمِ تحفّظ کا احساس لوگوں کو ملک چھوڑ جانے پر مجبور کررہا ہے۔ جس بستی میں قانون اور انصاف کی حکمرانی نہ ہو بلکہ حکمرانوں کی خواہش ہی قانون بن جائے وہاں سے انسان کوچ کر جاتے ہیں۔
ایک اور دانشور نے بحث میں حصّہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ درست ہے کہ عوام کو فوج کے بالمقابل کھڑا کردیا جائے اور عوام کو فوجی تنصیبات پر حملوں پر اکسایا جائے تو ایسی صورت میں ملک برباد ہوجاتے ہیں عوام کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آتا اور عوام کو اکسانے والے بھی تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مگر دوسری جانب بھی تو اصلاحِ احوال کی کوئی کوشش ہوتی نظر نہیں آتی، امورِ مملکت چلانے کے لیے یکطرفہ قوانین بروئے کار لائے جائیں تو حالات سدھرنے کے بجائے مزید بگڑتے ہیں۔ جیسا کہ ہمارے ملک میں ہورہا ہے۔ چند سال قبل ایک اہم ادارے کے سربراہ کی سابق وزیراعظم یعنی بانی پی ٹی آئی سے پہلی ملاقات ہوئی تو وزیراعظم نے اس ادارے کے سربراہ سے پوچھا’’آپ کے خیال میں ملک کا اہم ترین مسئلہ کیا ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’ملک کی انتہائی کمزور معیشت‘‘ اس پر اُس وقت کے پرائم منسٹر صاحب نے فرمایا ’’ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اکانومی نہیں بلکہ اپوزیشن ہے۔
اکانومی کو چھوڑیں۔ اپوزیشن والوں کو پکڑ کے بند کریں‘‘۔ موجودہ حکمران دنیاداری میں زیادہ سمجھدار یا تجربہ کار ہیں۔ زبان سے ایسی بات نہیں کرتے مگر ان کی پالیسیاں اُسی بات کی غمازی کرتی ہیں کہ ان کی سوچ بھی سابق وزیراعظم والی ہے اور آج کے ظاہری اور اصلی حکمران بھی ملک کے اصل مسائل سے صرفِ نظر کیے ہوئے ہیں اور ان کے نزدیک بھی سب سے بڑا مسئلہ پی ٹی آئی اور اس کے بانی کو فکس اپ کرنا ہے۔۔ ایسی ترجیحات کے ساتھ ملک کے مسائل پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے؟
کیا یہ تلخ حقیقت ہمارے لیے تشویش کا باعث نہیں ہونی چاہیے کہ مسلمانوں کے مقدّس ترین شہروں مکّہ، مدینہ حتٰی کہ غارِ حرا پر بھی پاکستانی گداگر پہنچ کر ملک اور قوم کا نام بدنام کررہے ہیں۔ سینٹرل ایشیا کی ریاستیں پاکستان سے عشق کرتی تھیں مگر آج وہاں کے باشندے پاکستانیوں کا نام سن کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔
ترکی دنیا کا واحد ملک تھا جس کا ہر شہری پاکستان سے ٹوٹ کر محبّت کرتا تھا، مگر کچھ بدبخت پاکستانیوں کی حرکتوں کی وجہ سے وہ آج پاکستانیوں سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ یو اے ای جیسے ملک نے پاکستان کے درجنوں اضلاع کے لوگوں پر پابندی لگادی ہے کہ وہاں کے لوگ یو اے ای میں داخل نہیں ہوسکتے۔ سعودی عرب جیسا دیرینہ دوست پاکستانیوں کو اپنے ملک سے نکال رہا ہے۔ یہ سب کچھ ہماری اپنی حرکتوں اور وارداتوں کی وجہ سے ہورہا ہے۔ کیا حکمرانوں نے کبھی ان ’’حرکتوں‘‘ کو کنٹرول کرنے کے بارے میں سوچا ہے؟ کیا کبھی ملک کا امیج برباد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی گئی؟ حکمرانوں کو ذاتی یا ادارہ جاتی وقار کی تو فکر ہے مگر ملک کے امیج اور وقار کی کوئی فکر نہیں۔ سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ ملک کا وقار آپ کے ذاتی اور ادارہ جاتی وقار سے کہیں زیادہ مقدّس اور مقدّم ہے۔
نوٹ: ایک ’’فنکار‘‘ نے پاک بحریہ کے شہداء کے بارے میں جو عامیانہ باتیں کی ہیں، وہ افسوسناک اور قابلِ مذمّت ہیں۔ لگتا ہے عمررسیدگی نے گفتگو میں توازن کھو دیا ہے، اب ان کا مزاح اور طنز شگفتگی اور شائستگی سے محروم اور معتصبانہ ہوچکا ہے۔ سامعین کی حس ظرافت کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں ہے ورنہ کوئی اُسی وقت ٹوک دیتا۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس