8دسمبر کو خبر آئی کہ شام کا صدر بشار الاسدرات کی تاریکی میں فرار ہو کر اپنے سرپرست ملک روس پہنچ گیا۔ تو کیا شام میں وہ جنگ بالآخر ختم ہو گئی جو 2011 ء میں شروع ہوئی تھی۔ اس کا جواب نہیں میں ہے۔ اسد گھرانے کی شام میں 1971ء سے قائم آمریت اپنے پیچھے پیچیدہ لڑائیوں اور خانہ جنگیوں کا امکان چھوڑ گئی ہے۔ فی الحال تو دنیا بشار الاسد کی قیمتی گاڑیوں کے ذخیرے اور خوفناک عقوبت خانے دریافت کر رہی ہے۔ ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے عام شہری گزشتہ حکومت کے ان ایوانوں میں لوٹ مار سے لطف اٹھا رہے ہیں جہاں چند روز پہلے تک چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی۔ ہماری نسل نے ایران کے رضا شاہ پہلوی سے لے کر سوڈان کے عدی امین تک ،پانامہ کے نوریجا سے عراق کے صدام حسین تک ،لیبیا کے قذافی سے رومانیہ کے چائو شسکو تک یہ تمثیل بار بار دیکھ رکھی ہے۔ ہمارے کچھ صاحبان علم آئے روز ہمیں سمجھاتے ہیں کہ ’’دنیا میں ترقی، خوشحالی اور امن کے لیے جمہوریت جیسی ضروری چیز نہیں۔ بلکہ آمریت کے نظم و ضبط اور استحکام میں معاشی ترقی کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔‘‘ مجھ کم علم کی رائے ہے کہ آمریت کا ہر ناٹک ختم ہوتا ہے تو اس کے پس پردہ انتظامی نااہلی، مالی بدعنوانی اور ذاتی کج روی کی بدصورتیاں برآمد ہوتی ہیں۔ سفارتی حساسیت آڑے نہ آتی تو اس وقت بھی درجنوں ایسے ممالک گنوائے جا سکتے ہیں جہاں ’مستحکم حکومت ‘کے پائیں باغ میں بدنام زمانہ عقوبت خانے ہیں ۔ حکومتی عمال بدعنوان ہیں اور منصب کے تام جھام کی اوٹ میں بدصورت درندے چھپے ہیں۔ آج کی دنیا میں کم از کم 120مسلح تصادم جاری ہیں۔ ان میں ساٹھ قومی ریاستیں اور سینکڑوں غیر ریاستی گروہ براہ راست ملوث ہیں۔ حیرت ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ اسلحہ پیدا کرنے والے ممالک مثلاً یورپین یونین اور امریکا وغیرہ جنگ سے مکمل محفوظ ہیں۔ یہ محض اتفاق تو نہیں ہو سکتا۔
انسان جنگل سے آنے والی عجیب مخلوق ہے جو جستجو، امید اور تخلیق سے صورت پذیر ہوئی ہے۔ ارتقا کے ہر مرحلے پر خیال ہوتا ہے کہ بس اب جنگل کے ملبے کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ واقعہ مگر وہی ہے جسے فیض صاحب نے چھوٹی بحر میں بیان کیا تھا۔’ ’ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یونہی پذیرائی…. جس بار خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی‘‘ ایک سو دس برس قبل پہلی عالمی جنگ شرو ع ہوئی تھی۔ اس زمانے کے ایک معروف لکھنے والے ایچ جی ویلز نے جنگ سے کچھ پہلے 1913 ء میں ایک کتاب لکھی تھی The World Set Free ۔ویلز صاحب کا خیال تھا کہ جدید ہتھیاروں کی موجودگی میں اب جو جنگ شروع ہو گی ، یہ دنیا کی آخری جنگ ہو گی۔ انسانوں کو ہمیشہ کے لیے جنگ سے نجات مل جائے گی۔ اب ہم مڑ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایچ جی ویلز صاحب نے جب یہ پیش گوئی کی تو دنیا نے ابھی ٹینک دیکھا تھا اور نہ ہوائی جنگ کا کوئی تصور تھا۔ چار برس بعد نومبر 1918 ء میں یہ جنگ ختم ہوئی تو مرنے والوں کی تعداد دو کروڑ تھی۔ عثمانیہ ، روس ، جرمنی اور آسٹرو ہنگیرین نام کی چار سلطنتیں ماضی کا حصہ بن چکی تھیں۔ ایچ جی ویلز کی کتاب سے ٹھیک سو برس بعد 2014 ء میں معروف مؤرخ Russell Freedman نے The War to End All Warsکے نام سے پہلی عالمی جنگ کا ایک مرتب تجزیہ پیش کیا ۔ اس کتاب کا مرکزی خیال یہ تھا کہ دنیا بھر میں تنازعات ، مفادات اور شناخت کے تانے بانے اس قدر پیچیدہ ہیں کہ جس لڑائی کو دنیا کی آخری لڑائی سمجھا جا رہا تھا اس کے بطن سے صرف بیس برس بعد دوسری عالمی جنگ برآمد ہوئی جس میں مرنے والوں کی تعداد چھ کروڑ تھی۔ دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہی ایک حقیقت بن چکی تھی۔ اقوام متحدہ کا قیام بہت سی توقعات لے کے آیا تھا لیکن جنگ کے خاتمے پر ایک برس بھی نہیں گزرا تھا کہ سرد جنگ شروع ہو گئی۔ دنیا میں دو بڑی عالمی طاقتیں ابھریں اور دونوں نے اپنے ٹھیلے پر پسندیدہ غنڈے جمع کر لیے۔ تب ہر پاک بھارت تنازع میں روس بھارت کے حق میں ویٹو کیا کرتا تھا اور امریکا پاکستان کی وکالت کیا کرتا تھا۔ آج امریکا بھارت کا تزویراتی حلیف ہے اور پاکستان عالمی میزان کے اس پلڑے سے قربت کا دعویدار ہے جس میں روس اور چین کے علاوہ ایران اور ترکی بھی موجود ہیں۔ ایک سوال تو ان ترقی پسند دوستوں سے بنتا ہے جو کبھی خود کو پیکنگ نوازاور ماسکو نواز کہتے تھے۔ دوسری طرف ہمارے ملک میں ایسے گروہ بھی موجود تھے جو ’سمرقند و بخارا کی خونی سرگزشت ‘ جیسی کتابیں شائع کر کے ہمیں سوویت یونین کی اصل تصویر دکھایا کرتے تھے۔ یہ تمام احباب آج کل منقار زیرِپر ہیں۔ ان سب گروہوں سے پوچھنا چاہیے کہ آپ کے مزعومہ نظریاتی مباحث زیادہ بنیادی حقیقت تھے یا سیاست اور معیشت کی منطق زیادہ بے رحم تھی۔ گزشتہ دنوں بنگلہ دیش میں سیاسی تبدیلی آئی تو ہمارے ملک میں مدت سے بے پتوار کی کشتیوں میں بیٹھے کچھ دوستوں نے بے ساختہ مسرت سے ایسی اچھل کود کی گویا ہماری تاریخ سے 16دسمبر 1971 ء کا داغ دُھل گیا ہو۔ تاریخ کے پارچوں پر سیاہ اور سفید لکیریں بہت کم ہیں۔ اس کے تانے بانے میں سرمئی منطقوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش میں جو سیاسی تبدیلی آئی ہے اس میں حسینہ واجد کی جگہ خالدہ ضیاالرحمن کو بنیادی سیاسی کردار حاصل ہے اور خالدہ ضیاالرحمن بیوہ ہیں میجر ضیاالرحمن کی، جنہوں نے 25 اور 26 مارچ 1971 ء کی درمیانی شب چٹاگانگ سے مشرقی پاکستان کی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ تب پاکستان میں کچھ سیاسی قوتیں یحییٰ آمریت کے بغل بچوں کا کردار ادا کر رہی تھیں۔ انہیں یہ غلط فہمی ہے کہ خالدہ ضیا الرحمن پاکستان نواز ہیں۔ درحقیقت یہ بنگلہ دیش کی داخلی سیاست ہے۔ متحدہ پاکستان کو دولخت ہوئے نصف صدی گزر چکی ۔ تاریخ کا دریا پچاس برس میں بہت سی منزلیں طے کر جاتا ہے اور شام میں بے قابو ہجوم کی ہنگامہ آرائی کو ’انقلاب‘ سمجھنے والوں کو تو شاید پچاس برس کی مہلت بھی نہ ملے
بشکریہ روزنامہ جنگ