دسمبر2024کے پہلے ہفتے منعقد ہونے والی پاک فوج کی84ویں فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کو ہم میں سے کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا ۔ جب چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل سید عاصم منیر، کی زیر صدارت تقریباً2صد سینئر ترین فوجی افسر کسی کانفرنس میں شریک ہو رہے ہوں تو اُس کانفرنس ، اس کے شرکا اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے نکات کو کوئی بھی کیسے نظر انداز کر سکتا ہے ؟ مبینہ طور پر فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں میجر جنرل اور اس سے بالا رینک کے حامل تمام افسرانِ کرام شریک ہوتے ہیں۔
وطنِ عزیز کی تینوں مسلّح اور محترم افواج کے ترجمان ادارے ISPRکے توسط سے مذکورہ2روزہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں ہونے والی گفتگو و شنید کے جو مندرجات میڈیا میں سامنے آئے ہیں، وہ خاصے قابلِ غور بھی ہیں اور مجوزہ بھی ۔ اِن میں پاک فوج کا عزم بھی جھلکتا ہے اور بعض نکات میں حکومتِ وقت کو سختی سے نفاذ کی ترغیب بھی دی گئی ہے ۔ کچھ باتیں اشاروں کنایوں میںاور بین السطور بھی کہی گئی ہیں کہ بعض اوقات کنایہ بھی عقلمندوں کے لیے کفائت کرتا ہے۔
آئی ایس پی آر کے بقول ،مذکورہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا ہے :(1)حکومت بے لگام غیر اخلاقی آزادیِ اظہار کی آڑ میں زہر اُگلنے، جھوٹ بولنے اور معاشرتی تقسیم کا بیج بونے کے خاتمے کے لیے نہ صرف قوانین بنائے بلکہ اِن پر عملدرآمد بھی کروائے (2) سیاسی و مالی فوائد کے لیے جعلی خبریں پھیلانے والوں کی نشاندہی بھی کی جائے اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں بھی لایا جائے(3)ذاتی مفادات کے لیے معصوم شہریوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے اور تشدد کو بطورِ ہتھیار استعمال کرنے کی کسی کوشش کو ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا (4) کانفرنس میں (اسلام آباد میں) اہم سرکاری عمارتوں کو محفوظ بنانے اور غیر ملکی وفود کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے پاک فوج کی قانونی تعیناتی کے خلاف پروپیگنڈے پر تشویش کا اظہار کیا گیا (5) یہ پروپیگنڈہ بعض سیاسی عناصر کے مذموم عزائم کے تسلسل کی عکاسی کرتا ہے (6) اِس مذموم پروپیگنڈے کا مقصد عوام ، فوج اور اداروں کے درمیان دراڑیں پیدا کرنا ہے ۔ ایسی قابلِ مذمت کوششیں کامیاب ہوں گی نہ انھیں کامیاب ہونے دیا جائے گا ۔
کوئی بھی محبِ وطن پاکستانی مذکورہ بالا نکات سے عدم اتفاق نہیں کر سکتا ۔ ہم سب کو پاکستان کی سبھی مسلّح افواج کی سلامتی اور طاقت عزیز تر ہے ۔ ہم سب یہی چاہتے ہیں کہ پاک افواج میں مکمل اتحاد برقرار رہے اور پاک افواج کا ایک ایک فرد دشمن کے سامنے واقعی معنوں میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح ایستادہ رہے ۔
ہر پاکستانی دل کی گہرائیوں سے اِس حقیقت کا ادراک بھی رکھتا ہے اور اِس پر یقینِ کامل بھی رکھتا ہے کہ افواجِ پاکستان کی مضبوطی ہی دراصل پاکستان اور اہلِ پاکستان کی مضبوطی و سلامتی کی ضامن ہے ۔ ہم جب آج کے غزہ و پورے فلسطین ، اُدھڑے عراق، پارہ پارہ لیبیا، صہیونی اسرائیل کے سامنے پسپا لبنان اور ملکِ شام میں جاری تازہ ترین و شرمناک خانہ جنگی کے احوال پڑھتے اور دیکھتے ہیں تو افواجِ پاکستان سے محبت بڑھ جاتی ہے ۔
ساتھ ہی اِس بات کا احساس بھی فزوں تر ہو جاتا ہے کہ ہماری تینوں مسلّح افواج کی مضبوطی ، اتحاد اور طاقت ہم سب کے لیے کسقدر ضروری و ناگزیر ہے۔تو آخر کیا وجہ ہو گئی ہے کہ تازہ ترین فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں مرکزی طور پر وہ قابلِ تشویش باتیں کہی اور سُنی گئی ہیں کہ جن کا مرکزی نکتہ ہی یہ ہے کہ کچھ عناصر خبثِ باطن کا اظہار کرتے ہُوئے ، دانستہ ، پاک فوج کے خلاف بروئے کار آ رہے ہیں ؟ شومئی قسمت سے پچھلے کچھ عرصے کے دوران ملکی سیاست میں ایسے جوار بھاٹے آئے ہیں کہ اِن کے منفی اثرات ہر جانب محسوس کیے گئے ہیں۔ بعض ناہنجاروں نے اپنے نجی ، ذاتی ، جماعتی اور گروہی مفادات کے حصول و تحفظ کے لیے افواجِ پاکستان ایسے عظیم و غیر جانب ادارے پر بے جا تنقیدی یلغار بھی کی ہے (اور یہ سلسلہ ہنوذ جاری ہے )اور اِن عناصر نے اپنے مالی و سیاسی مفادات کے لیے وطنِ عزیز کے حساس اداروں پر بِلا وجہ، غیر حقیقی اور بے بنیاد حملے بھی کیے ہیں ۔
اِس زیاں کاری کا احساس پہلے پہل فرد کی سطح پر کیا جارہا تھا۔ توقع کی جارہی تھی کہ یہ وقتی اور مقامی ہے۔ خیال تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ طوفانِ بدتمیزی اور منفی پروپیگنڈے کی متنوع یلغار تھم جائے گی۔ ایسا مگر نہیں ہو سکا ہے ۔ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اِس میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے اور اِس طوفانِ بدتمیزی کی ہمہ گیری زیادہ بڑھی بھی ہے۔ اِس کا انسداد از بس ضروری ہو گیا ہے۔
اِس پروپیگنڈے کی زیاں کاری اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب اِس کا احساس و ادراک افواجِ پاکستان تک بھی پہنچ گیا ہے ؛ چنانچہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں اجتماعی اور متفقہ طور پر اِس بارے غورو خوض کرتے ہُوئے شہباز حکومت کو انسداد کے لیے فوری اقدامات کرنے کا کہہ بھی دیا گیا ہے ۔ابھی پیغام میں کسی ادارے ، گروہ ، جماعت اور شخصیت کا نام نہیں لیا گیا ہے کہ حکومت کو کس کے خلاف فوری کارروائی کرنی چاہیے۔ پیغام مگر واضح ہے ۔ پیغام دینے والے بھی خوب جانتے پہچانتے ہیں کہ وہ کونسے عناصر ہیں جو اداروں کو ہدف بنا رہے ہیں ۔ شہباز حکومت بھی جانتی مانتی ہے کہ یہ لوگ کون ہیں جو خاص طور پر سوشل میڈیا پر کذب و ریا اور دجل و فریب کا بازار گرم کرکے اپنی جیبیں بھی گرم کررہے ہیں اور لاتعداد معصوم ذہنوں کو مسموم بھی کررہے ہیں ۔
ملک ،حکومت اور اداروں کے خلاف زہر اُگلنے، جھوٹ بولنے اور معاشرتی تقسیم کا بیج بونے والے یہ عناصر دراصل آج کے ’’گوئبلز‘‘ ہیں : جرمنی کے پال جوزف گوئبلزکی معنوی اولاد ۔ گوئبلز توہٹلر کا پروپیگنڈہ وزیر تھا ۔ اور اُس نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران اپنے باس کے حکم پر ، اپنے جملہ دشمنوں اور حریفوں کے خلاف، جھوٹ اور دروغ گوئی کا ایسا بازار گرم کر دیا تھا کہ ساری مغربی دُنیا نفرت اور آتش و آہن کی لپیٹ میں آ گئی ۔ گوئبلز اور اس کے مرشدو و پیروکاروں کا مگر انجام اور اَنت کیا ہُوا ؟ ملک و معاشرے اور معیشت کی مکمل تباہی!اور خود کشی کی شرمناک اور ذلت آمیز موت!ہمارے آج کے گوئبلزبھی زہر اُگلنے سے باز نہ آئے ، اپنی ملک و سماج دشمن سرگرمیوں سے دستکش نہ ہُوئے تو اِن کا انجام بھی گوئبلز کے سرپرستوں اور پیروکاروں سے مختلف نہیں ہوگا ۔
اس لیے مناسب یہی ہوگاکہ ہمارے یہ مقامی گوئبلز اپنی خر مستیوں اور چیرہ دستیوں سے از خود باز آ جائیں ۔ اِن سب چھوٹے بڑے گوئبلز نے خصوصاً 9مئی اور26نومبر کے سانحات کے بعد جن جعلی ، بے بنیاد اور غیر حقیقی وی لاگز، ٹک ٹاکس ، ٹوئٹر وغیرہ سے ملک، چند شخصیتوں اور اداروں کے خلاف شرمناک سنگباری کی ہے ،اِن سے مراجعت اختیار کریں ۔ بصورتِ دیگر حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ملک ، عوام اور اداروں کے تحفظ اور سلامتی کی خاطر ایسے سخت قدم اُٹھائے جن کے اُٹھائے جانے پر اِن گوئبلز کو واقعی معنوں میں تکلیف ہو سکتی ہے۔ دسمبر کا یہ مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ متحدہ پاکستان کے خلاف یہ بھارتی گوئبلز تھے جن کے جھوٹ و افترا سے پاکستان دو لخت ہو گیا تھا ۔ اِس پس منظر میں نئے اور مقامی گوئبلز کو کیسے برداشت کیا جائے؟۔ قطعی نہیں!
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس