شام کے صدر بشار الاسد کی زندگی میں بہت سے اہم لمحات ہیں لیکن شاید سب سے زیادہ متاثر کن وہ کار حادثہ تھا جو اس مقام سے ہزاروں کلومیٹر دور پیش آیا جہاں وہ رہ رہے تھے۔
بشار الاسد کو ابتدائی طور پر اپنے والد سے وراثت میں اقتدار سنبھالنے کے لیے تیار نہیں کیا گیا تھا۔ یہ سلسلہ 1994 کے اوائل میں دمشق کے قریب ایک کار حادثے میں ان کے بڑے بھائی باسل کی موت کے بعد شروع ہوا۔
اس وقت بشار لندن میں امراض چشم کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
باسل کی موت کے بعد چھوٹے بھائی کو شام میں اقتدار کے وارث کے طور پر تیار کرنے کے منصوبے بنائے گئے۔ بعد میں انھوں نے ایک جنگ کے ذریعے ملک کی قیادت کی۔۔۔ ایک ایسی جنگ جس میں لاکھوں جانیں گئیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔
لیکن بشار الاسد ڈاکٹر سے ایک ایسے آمر رہنما میں کیسے تبدیل ہوئے جس پر جنگی جرائم کا الزام ہے؟
باپ کی وراثت
بشار الاسد 1965 میں حافظ الاسد اور انیسہ مخلوف کے ہاں پیدا ہوئے۔
ان کی پیدائش ایک ایسے وقت میں ہوئی جب شام، مشرق وسطیٰ اور یہاں تک کہ دنیا کے دیگر حصوں میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ اس وقت عرب قوم پرستی نے جمال عبدالناصر کی صدارت کے ساتھ بہت سے ممالک بالخصوص مصر کی علاقائی سیاست کو متاثر کیا تھا۔بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
مصر اور شام (1958-1961) کے درمیان مختصر مدت کے اتحاد کی ناکامی کے بعد بعث پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور عرب قوم پرست نعروں کو فروغ دیا تھا۔ اس وقت بیشتر عرب ممالک کی طرح شام میں بھی جمہوری حکومت نہیں تھی اور وہاں کثیر الجماعتی انتخابات نہیں ہوئے تھے لیکن اس کی معاشی پالیسیاں بنیادی طور پر محروم سماجی طبقات کے حق میں تھیں۔
علوی برادری جس سے اسد خاندان کا تعلق ہے، یہ شام کے سب سے محروم طبقات میں شمار ہوتی تھی اور معاشی مشکلات نے اس کے بہت سے ارکان کو شامی فوج میں شامل ہونے پر مجبور کیا۔
حافظ الاسد ایک فوجی افسر اور بعث پارٹی کے کٹر حامی کے طور پر مشہور ہوئے اور پھر 1966 میں وہ وزیر دفاع بنے۔
حافظ الاسد نے اقتدار کو مستحکم کیا اور 1971 میں صدر بن گئے، یہ عہدہ وہ 2000 میں اپنی موت تک برقرار رہے۔ یہ لمبی عمر شام کی آزادی کے بعد کی تاریخ میں قابل ذکر تھی، جس نے فوجی بغاوتوں کا ایک سلسلہ دیکھا تھا۔
حافظ الاسد نے 1970 تک اپنی طاقت کو مستحکم کیا اور 1971 میں وہ صدر بن گئے۔ وہ اس عہدے پر 2000 میں اپنی موت تک برقرار رہے۔ شام کی آزادی کے بعد کی تاریخ جس میں کئی بغاوتیں بھی شامل ہیں، ایسے میں ان کا تین دہائیوں تک اقتدار میں رہنا انتہائی غیر معمولی سمجھا جاتا ہے۔
حافظ ایک سخت گیر حکمران تھے جنھوں نے اپوزیشن کو دبایا اور جمہوری انتخابات کرانے سے انکار کیا، تاہم انھوں نے اپنی خارجہ پالیسی میں عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا۔ سوویت یونین کے ساتھ اتحاد کرنے کے بعد پھر 1991 میں انھوں نے خلیج فارس کی جنگ میں امریکی قیادت والے اتحاد میں شمولیت اختیار کی۔
میڈیسن، لندن اور اسما سے ملاقات
ان حالات میں بشار الاسد نے سیاست اور فوج سے دور ایک مختلف راستہ چنا جو سیاست اور عسکریت پسندی سے کوسوں دور تھا۔ انھوں نے طب میں اپنا کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا۔
دمشق یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ 1992 میں لندن کے ویسٹرن آئی ہسپتال میں امراض چشم میں مہارت حاصل کرنے کے لیے برطانیہ چلے گئے۔
بی بی سی کی 2018 کی دستاویزی فلم ’دا اسدز: اے ڈینجرس ڈائنیسٹی‘ کے مطابق بشار الاسد کی لندن میں زندگی بہت خوشگوار تھی۔ وہ انگریزی گلوکار فل کولنز کے دلدادہ تھے اور مغربی ثقافت کو پسند کرتے تھے۔
لندن میں ہی بشار اپنی اہلیہ اسما فواز الاخرس سے ملے۔ اسما کنگز کالج لندن میں کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور بعد میں انھیں ہارورڈ یونیورسٹی میں ایم بی اے پروگرام میں داخلہ مل گیا۔ تاہم ان کی زندگی نے جلد ہی ایک مختلف موڑ لیا۔
وارث کی ہلاکت
بشار حافظ الاسد کے دوسرے بیٹے تھے اوران کی زندگی اپنے بڑے بھائی باسل کے سائے میں گزری تھی جنھیں ان کے والد کے وارث کے طور پر تیار کیا جا رہا تھا۔
اپنے انجینئرنگ پس منظر اور گھڑ سواری کے شوق کی وجہ سے مشہور باسل کو شام میں اقتدار کا ’یقینی وارث‘ سمجھا جاتا تھا۔
جنوری 1994 میں باسل دمشق کے قریب ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئے اور اس حادثے نے بشار کی زندگی بدل دی۔
انھیں فوری طور پر لندن سے واپس بلا لیا گیا اور شام کے مستقبل کی قیادت کے لیے انھیں تیار کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔
بشار نے فوج میں شمولیت اختیار کی اور مستقبل میں اپنے کردار کے لیے عوامی امیج بنانا شروع کیا۔
تبدیلی کے خواب کا سفر
حافظ اسد کی وفات جون 2000 میں ہوئی۔ ان کی موت کے فوری بعد 34 سالہ بشار کو فوری طور پر صدر مقرر کر دیا گیا۔
شام میں چونکہ صدارت کے لیے عمر کی حد کم ازکم 40 سال تھی اس لیے ان کا اقتدار شام کے آئین میں ترمیم کے بعد ہی ممکن ہو سکا۔
بشار الاسد نے حلف اٹھانے کے بعد ایک نیا سیاسی لہجہ اختیار کرتے ہوئے شفافیت، جمہوریت، ترقی، جدت، احتساب اور ادارہ جاتی سوچ کو اپنانے کی بات کی۔
اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد بشار الاسد نے اسما الاخرس سے شادی کر لی۔ ان کے تین بچے ہیں جن کے نام حفیظ، زین اور کریم ہیں۔
پہلے پہل سیاسی اصلاحات اور میڈیا کی آزادی کے بارے میں بشار الاسد کے خیالات نے بہت سے شامیوں میں امید کی کرن جگائی۔ ان کی اہلیہ اسما کی مغرب سے اعلی تعلیم اور بشار الاسد کے قائدانہ انداز نے ایک نئے اور امید افزا دور کا آغاز کیا۔
شام میں بحث و مباحثے اور اظہار رائے کی نسبتاً آزادی کا ایک مختصر دور آیا جس کو ’دمشق سپرنگ‘ کا نام دیا گیا تاہم 2001 سے سکیورٹی فورسز نے ایک بار پھر حزب اختلاف کی آواز کو دبانا شروع کیا اور مخالفین کی گرفتاریاں عمل میں آنے لگیں۔
بشار الاسد نے محدود پیمانے پر اقتصادی اصلاحات متعارف کرائیں جنھوں نے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی تاہم ان اصلاحات نے بشار الاسد کے کزن رامی مخلوف جیسے لوگوں کے اثر و رسوخ اور طاقت کو مضبوط کیا۔
مخلوف نے ایک بہت بڑی اقتصادی سلطنت بنائی جسے ناقدین بشار الاسد حکومت کی دولت اور طاقت کے استحکام کی ایک مثال کے طور پر دیکھتے ہیں۔
دمشق سپرنگ کے اختتام کے بعد بین الاقوامی تعلقات کےایک نئے دور کا آغاز ہوا جو 11 ستمبر 2001 کے حملوں اور اس کے بعد افغانستان اور عراق میں امریکہ کی جنگوں کے بعد وجود میں آیا تھا۔
علاقائی تعلقات اور خارجہ پالیسی
2003 میں عراق میں ہونے والی جنگ بشار الاسد کے مغربی حکومتوں کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کا سبب بنی۔ شامی صدر نے عراق پر امریکی حملے کی مخالفت کی تھی۔
ان کے اس اقدام نے اس خیال کو تقویت دی کہ بشار الاسد کو خدشہ تھا کہ امریکی فوجی کارروائیوں کا اگلا ہدف شام بنے گا اور ان کا اپنا انجام صدام حسین جیسا ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب واشنگٹن نے دمشق پر الزام عائد کیا کہ وہ امریکی قبضے کے مخالف عراقی باغیوں کو ہتھیاروں کی سمگلنگ کو نظرانداز کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ انتہا پسند قوتوں کو دونوں ممالک کے درمیان طویل سرحد عبور کرنے کی اجازت دینے میں ملوث ہے۔
آخر کار 2003 کے آخر میں امریکہ نے متعدد وجوہات کو بنیاد بنا کر شام پر پابندیاں عائد کر دیں جس میں صرف عراق کو ہی نہیں بلکہ لبنان میں شامی فوج کی موجودگی کو بھی جواز بنایا گیا۔
فروری 2005 میں لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق حریری بیروت کے مرکز میں ایک بڑے دھماکے میں ہلاک ہو گئے اور اس واقعے کا الزام شام اور اس کے اتحادیوں پر لگایا گیا۔
رفیق حریری کی ہلاکت کے بعد لبنان میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے اور بلآخر بین الاقوامی دباؤ کے باعث تقریباً 30 سال بعد لبنان سے شامی افواج کا انخلا ہو گیا۔
2020 میں ایک خصوصی بین الاقوامی ٹریبونل نے حزب اللہ کے ایک رکن کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دیا تاہم بشار الاسد اور ان کے اہم اتحادی لبنان کی حزب اللہ نے حریری کے قتل میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
بشار الاسد کی صدارت کے پہلے عشرے میں شام کے تعلقات سب سے پہلے ایران کے ساتھ مضبوط ہوئے جس کے ساتھ ہی قطر اور ترکی کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری آئی تاہم ان کے ساتھ تعلقات بعد میں بدل گئے۔
درحقیقت سعودی عرب نے ابتدائی طور پر نوجوان صدر بشار الاسد کی حمایت کی تاہم دمشق اور ریاض کے تعلقات میں بعد میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔
بشار الاسد نے مجموعی طور پر والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے براہ راست فوجی تنازعات سے بچنے کے لیے محتاط رویہ اپنایا۔
ایک دہائی کی حکمرانی کے بعد شام کے صدر کو آمرانہ نقطہ نظر رکھنے والے رہنما کے طور پر جانا جاتا تھا جس کے دور میں مخالفین کی آواز کو دبایا جا رہا تھا۔
دسمبر 2010 میں اسما اسد نے ووگ میگزین کو دیِے گئے انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ ان کے ملک میں جمہوریت کی حکمرانی ہے۔
اسی دن تیونس کے ایک سبزی فروش محمد بوعزیزی نے ایک پولیس اہلکار کے تھپڑ مارنے کے بعد خود کو آگ لگا لی اور اس کارروائی کے نتیجے میں تیونس میں ایک عوامی بغاوت نے جنم لیا جس نے صدر زین العابدین بن علی کا تختہ الٹ دیا۔
تیونس میں ہونے والی بغاوت سے غیر متوقع طور پر عرب دنیا میں انقلابی تحریکوں کا آغاز ہوا اور یہ آگ مصر، لیبیا، یمن، بحرین اور شام تک پہنچ گئی۔
مارچ 2011 کے ووگ انٹرویو میں چھپے مضمون ’صحرا میں گلاب ‘ کے عنوان نے شام کو ’بم دھماکوں، کشیدگی اور اغوا سے پاک ملک کے طور پر بیان کیا تاہم شام کی یہ شبہیہ چند مہینوں میں بالکل بدل گئی۔
اس انٹرویو کو بعد میں ہٹا دیا گیا تھا۔
اسی سال مارچ کے وسط میں دمشق میں حمیدیہ مارکیٹ کے ارد گرد مظاہرے شروع ہوئے۔ چند روز بعد دیواروں پر بشار الاسد کے خلاف نعرے لکھنے والے بچوں کی گرفتاری کے ردعمل میں جنوبی شام کے شہر درعا میں بڑے پیمانے پر ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیاجو تیزی سے پورے ملک میں پھیل گیا۔
دو ہفتے بعد پارلیمنٹ میں ایک خطاب میں بشار الاسد نے شام کے خلاف کی جانے والی ’سازش‘ کو ناکام بنانے کا عزم ظاہر کیا اور ساتھ یہ بھی تسلیم کیا کہ بہت سے لوگوں کی ضروریات زندگی پوری نہیں ہو پا رہی ہیں۔
لیکن درعا میں مظاہرین پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ نے احتجاج کو مزید بھڑکا دیا اور آخر کار مختلف شہروں میں مظاہرین نے بشار الاسد کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔
حکومت نے ان مظاہروں کا جواب تشدد سے دیا اور اس میں غیر ملکی دراندازی کا الزام لگایا۔
چند ہی ماہ میں شام کے پرامن مظاہرے حکومتی فورسز اور اپوزیشن گروپوں کے درمیان مسلح تصادم میں بدل گئے اور ان کا دائرہ پورے ملک میں پھیل گیا۔
اسلامی انتہا پسند گروہ اور بین الاقوامی مداخلت
تشدد اور تنازعات کا سلسلہ دراز ہوتا گیا اور علاقائی تنازع میں بین الاقوامی طاقتیں بھی شامل ہو گئیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس صورتحال سے متاثرین کی تعداد دسیوں ہزار سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ گئی۔
روس، ایران اور ایران سے وابستہ مسلح گروہ بشار الاسد کی افواج کے ساتھ حمایت میں جب کہ ترکی اور خلیج فارس کے ممالک مخالف مسلح گروپوں کی حمایت کر رہے تھے۔
اگرچہ آغاز میں بشار الاسد کے خلاف مظاہرے آزادی اور جمہوریت کے نعروں اور مذہبی تقسیم کے بغیر شروع ہوئے تھے لیکن پھراس میں فرقہ وارانہ عنصر غالب آتا گیا۔
حزب اختلاف کے بعض گروہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ سنی اکثریت کے خلاف اورعلویوں کے حق میں امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
خطے کے دیگر ممالک کی مداخلت نے فرقہ وارانہ تقسیم کو مزید بڑھایا۔ اسلام پسند گروہوں نے علویوں کے خلاف دشمن کا سا رویہ اختیار کیا اور لبنان کی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کی قیادت میں ایران کی وفادار شیعہ ملیشیا بشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں شام منتقل ہو گئیں۔
اسی عرصے میں عراق میں ایک انتہا پسند گروہ ابھرا جس نے اسلامی قانون کی بہت سخت تشریح کی۔ اس گروہ کو دنیا نام نہاد دولت اسلامیہ یا داعش کے نام سے جانتی ہے۔
اس گروہ نے شام کی جنگ کو استعمال کر کے اس کے شہروں کو فتح کیا اور رقہ کو اپنا دارالحکومت منتخب کیا۔
جنگی جرائم اور کیمیائی ہتھیار
اگست 2013 میں دمشق کے قریب حزب اختلاف کے زیر قبضہ علاقے غوطہ میں کیمیائی حملے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
مغربی ممالک اور شامی حکومت کے مخالف گروہوں نے اس حملے کا ذمہ دار بشار الاسد حکومت کو ٹھہرایا۔
دمشق نے حملے میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی تاہم بین الاقوامی دباؤ اور دھمکیوں کے تحت اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر کو ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔
اس کے باوجود بھی شام میں جنگ کی سختیاں کم نہیں ہوئیں اور کیمیائی حملوں سمیت دیگر مظالم جاری رہے۔
اقوام متحدہ کے کمیشن نے تمام فریقوں پر قتل، تشدد اور ریپ سمیت جنگی جرائم کا الزام لگایا۔
ایک موقع پر یوں لگتا تھا کہ اسد حکومت ختم ہونے کے دہانے پر ہے اور ملک کے بڑے حصوں پر کنٹرول کھو چکی ہے۔
لیکن 2015 میں روس کی براہ راست مداخلت نے بشار الاسد کی حکومت کو اہم علاقوں پر دوبارہ قبضہ لینے میں مدد کی۔
غزہ کی جنگ
2018 اور 2020 کے درمیان علاقائی اور بین الاقوامی معاہدوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال سے حکومتی فورسز نے شام کے زیادہ تر حصے پر کنٹرول واپس لے لیا جبکہ اسلام پسند اپوزیشن گروہ اور کرد ملیشیا شمال اور شمال مشرق میں علاقوں پر قابض رہے۔
ان معاہدوں سے بشار الاسد کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوا۔ بغاوت کے آغاز سے عرب دنیا کے ساتھ خراب تعلقات کے باوجود آہستہ آہستہ عرب سفارتی حلقوں میں شام کی واپسی ہو گئی۔ اس واپسی کی علامت 2023 میں عرب لیگ میں شام کی دوبارہ شمولیت تھی۔
عرب ممالک نے دمشق میں اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولنے اور شام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا شروع کر دیا۔
بشار الاسد کے اقتدار کے تیسرے عشرے میں شام میں شدید اقتصادی بحران تھا تاہم اس کے باوجود وہ اپنی حکمرانی کے سب سے بڑے چیلنج سے بچتے دکھائی دے رہے تھے۔
برسوں کے خونریز تصادم کے بعد ایسا لگتا تھا کہ مشرق وسطیٰ اب نسبتاً پرسکون ہونے کے دہانے پر ہے۔
لیکن اکتوبر 2023 میں حماس نے اسرائیل کے خلاف اچانک حملہ کیا جس کے نتیجے میں غزہ جنگ شروع ہوئی جو تیزی سے پھیل کر لبنان تک جا پہنچی جہاں بشار الاسد کی اتحادی حزب اللہ موجود تھی۔
اس تنازع نے حزب اللہ کو بھاری نقصان پہنچایا اور اس کے کئی بڑے رہنما مارے گئے جن میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ بھی شامل ہیں۔
لبنان میں جنگ بندی کو قبول کرنے کے بعد دنیا کی توجہ تیزی سے شام کی طرف مبذول ہو گئی۔
اسی دن جب لبنان میں جنگ بندی قائم ہوئی، شام کے حزب اختلاف کے گروپوں نے اسلامی گروپ ہیت تحریر الشام کی قیادت میں اچانک حملہ کیا اور حلب شہر پر قبضہ کر لیا۔
انھوں نے تیزی سے پیش قدمی کی اور حما شہر پر قبضہ کر لیا اور پھر دمشق کی طرف پیش قدمی کے لیے حمص میں داخل ہو گئے۔
اب سے کچھ دیر قبل ہیت تحریر الشام نے دارالحکومت دمشق پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے جس کے بعد شام اور بیرون ملک یہ سوالات ایک بار پھر سر اٹھانے لگے ہیں: ’کیا آخرکار اسد کے اقتدار کا حاتمہ ہو گیا ہے؟‘
شام کے دو سینیئر فوجی حکام نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ صدر بشار الاسد طیارے میں سوار ہو کر دمشق سے نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گئے ہیں۔
بشار الاسد کی پوزیشن اس وقت غیر یقینی دکھائی دیتی ہے کیونکہ ان کے اہم اتحادی ایران اور روس اس کی مدد کے لیے نہیں آ سکتے۔
ہیت تحریر الشام کے اہم شہروں کے اہم شہروں پر قبضے کے بعد اب یہ سوال سر اٹھا رہا ہے کہ بشار الاسد کا مستقبل کیا ہو گا اور کیا ان کی حکمرانی آخرکار اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے؟
بشکریہ : بی بی سی اردو