اور پھر حمص کے بعد دمشق…تحریر!عبداللہ طارق سہیل

‏کل جو کالم شام کی صورتحال پر چھپا، وہ پرسوں صبح دس بجے لکھا تھا۔ اس میں بتایا تھا کہ ہیئت کی فوج حما سے تین کلو میٹر دور موجود ہیں اور اس کا ایک دستہ شہر کے اندر بھی جا گھسا ہے۔ اسی سہ پہر اخوان المسلمون کے ایک رابطہ کار سے خبر ملی کہ حما فتح ہو گیا ہے۔ چند قریبی احباب کو یہ خبر وٹس ایپ کے ذریعے دے دی۔ آدھے پون گھٹنے کے بعد ان سب نے فون کیا کہ یہ خبر تو کسی بھی میڈیا آؤٹ لیٹ پر نہیں ہے، کہیں یہ غلط خبر تو نہیں ہے، کہیں یہ غلط خبر تو نہیں ہے، عرض کیا، سو فیصد درست خبر ہے، عالمی میڈیا شاید تصدیق کر رہا ہو گا۔ تین گھنٹے بعد یہ خبر پہلے الجزیرہ، پھر بی بی سی انگریزی اور اس کے بعد العربیہ نے د ے دی لیکن اسے چوتھے پانچویں نمبر پر رکھا۔ پھر دوسرے میڈیا پر بھی چل گئی۔ بی بی سی اردو پر یہ خبر اگلے روز آئی یعنی سولہ گھنٹے کے بعد۔ پاکستان کے اردو میڈیا کی ویب سائٹس نے یہ خبر رات دس بجے کے قریب دی۔ 
‏تازہ صورتحال بہت اہم ہو گئی ہے۔ حما سے آگے شام کے محاذ جنگ کا سب سے فیصلہ کن مورچہ ’حمص ہے۔ یہ شام کا تیسرا بڑا شہر ہے اور شمالاً جنوباً شام کے بالکل وسط میں ہے۔ اس سے اگلی منزل قدرتی طور پر دمشق ہے جو سو میل دور ہے۔ جب یہ لکھ رہا ہوں تو ہیئت کی فوجیں سلمانیہ اور رستان کے شہروں پر قبضہ کر چکی ہیں جو حمص سے محض 40 ،50 کلومیٹر گویا 30 میل دور رہ گئی ہیں۔ جب تک یہ کالم چھپے گا تو کیا صورتحال ہو گی، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ حملہ آور فوج حمص تک پہنچ سکتی ہے یا روس کی شدید بمباری اسے روک سکتی ہے۔ بہرحال، جو نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ شام بشار کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ حمص پر قبضے کا مطلب یہ ہو گا کہ شام کے آباد رقبے کے نصف سے بھی زیادہ پر باغیوں کا قبضہ ہے۔ شمال کا سارا علاقہ پہلے ہی ’آزاد‘ ہو چکا ہے اور شمال مشرق کا بھی۔ جنوب مغرب میں بہت وسیع رقبہ بیابان اور صحرا ہے۔ راجستھان یا چولستان جیسا صحرا نہیں جہاں ہر پانچ دس میل بعد آبادی ہے۔ شام کا یہ بیابان سینکڑوں میل تک بے آباد ہے، یہاں بندہ بشر ہے نہ شجر و ثمر، خشک بنجر صحرا میں پتھریلی چٹانیں اور ٹیلے ہیں یا بہت فاصلے کے ساتھ شامی فوج کی چوکیاں۔ 
‏گویا شام کا بیشتر علاقہ بشار حکومت کے پاس نہیں رہا۔ روس بے پناہ بمباری کر رہا ہے لیکن زمینی فوج اْتارنے کا ارادہ نظر نہیں آتا حمص پر قبضے کا مطلب یہ ہو گا کہ بشار کے اقتدار والا شام ’لینڈ لاک کنٹری‘ بن جائے گا کیونکہ مختصر سا ساحلی علاقہ جس پر طرطوس اور لطاکیہ کی بندرگاہیں ہیں، بشار کے زیر قبضہ علاقے سے کٹ جائے گا۔ 
‏بری خبر یہ ہے کہ وسطی صحراؤں میں اچانک، بالکل اچانک داعش نکل آئی ہے اور حمص کے مشرقی صحرا کے ایک علاقے پر اس نے قبضہ کر لیا ہے۔ بغاوت کے پہلے مرحلے میں (اس وقت نصرہ فرنٹ لڑ رہا تھا) باغیوں نے سارے شمالی اور وسطی شام پر قبضہ کر لیا تھا تو داعش نے یک بار کی حملہ کر کے اس سے وسیع علاقہ چھین لیا تھا اور نصرۃ ادلیب اور البیو تک پسپا ہو گئی تھی۔ بعدازاں، امریکا، روس، برطانیہ اور فرانس نے کارپٹ بمباری کر کے داعش کا خاتمہ کیا اور یہ سارا علاقہ بشار کو واپس کر دیا۔ داعش مشرق کے وسط اور جنوب میں سات آٹھ ’حلقوں‘ کے اندر سرگرم ہے۔ اس نے پہلے بھی النصرہ فرنٹ کے سینکڑوں جنگجو مار دیے تھے اور اب بھی اس کا ہدف ہیئت ہے۔ 
‏ادلیب البیو حکومت کے غیر علانیہ سربراہ الجولانی نے عراقی حکومت سے کہا ہے کہ وہ ایرانی ملیشیاؤں کو شام داخلے سے روکے۔ ایرانی ملیشیا کے تین ہزار جنگجو دو روز قبل شام میں داخل ہوئے تھے،پھر ان کا پتا نہیں چلا کہ کہاں گئے۔ ادھر حزب اللہ کے چند سو جنگجو حمص کے محاذ پر پہنچ گئے ہیں۔ داعش نے سرگرمی بڑھائی تو کیا عالمی طاقتیں پھر مداخلت کریں گی؟ خاصا امکان اس بات کا موجود ہے لیکن اس بار کوئی علاقہ بشار کو واپس نہیں کیا جائے گا۔ امریکا اور یورپ کی کوشش شام میں نئی مخلوط حکومت بنانے کی ہو گی تاکہ اقتدار پر ’اخوانی‘ عناصر کا قبضہ یا غلبہ نہ ہو سکے۔ مغربی کنارے کی طرز پر سیکولر لبرل اور قابل قبول قیادت کو باگ ڈور دی جائے گی اور یہ قیادت موجود ہے۔ شام کی مشرقی سرحد پر جہاں عراق اور اردن کی سرحدیں بھی ملتی ہیں، ایک نیم دائرے کی شکل میں سینکڑوں مربع میل کا رقبہ ایک آزاد ریاست کے طور پر کام کر رہا ہے۔ یہاں امریکی فوجی اڈا بھی موجود ہے اور سیکولر باغیوں کی ایک مختصر سی فوج بھی موجود ہے۔ اس کے شمال میں کردوں کی ’آزاد ریاست‘ ہے جو شرقاً غرباً سینکڑوں میل تک پھیلی ہوئی ہے۔

کی ’حکومت‘ بھی سیکولر ہے۔ دمشق کے اندر سے بھی سیکولر قیادت کی کھیپ مل جائے گی۔ لیکن ابھی تک مغرب کا ایکشن پلان سامنے نہیں آیا۔ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کا انتظار ہے۔ 
‏خانہ جنگی کے پچھلے دور میں جو 2011ء سے شروع ہوا اور 2020ء میں نو سال کے بعد ختم ہوا، دس لاکھ شہری قتل کیے گئے۔ اس قتل عام میں روس، ایران، حزب اللہ، امریکا، برطانیہ اور فرانس سبھی شامل تھے۔ شام کے شہر کھنڈرات کے ڈھیر بن گئے۔ آج جو غزہ ہے، وہی منظر شام میں تھا اور ہے۔ 
‏شام میں زندگی واپس آئے گی یا نئی خانہ جنگی ہو گی۔ بشار حکومت تو نہیں رہے گی لیکن داعش کا ظہور نو اچھا شگون نہیں۔ شمال اور شمال مشرق کے کرد حکمران بھی ’ہیئت‘ سے خوفزدہ ہیں۔ ترکی کرد اور ہیئت دونوں کو ناپسند کرتا ہے۔ کردوں پر اس کی بمباری تیز ہو گئی ہے، ہیئت کے ساتھ وہ حکمت کا معاملہ کرے گا ، اس کا دائرہ اقتدار سلیقے اور قرینے سے محدود کرنے کی کوشش کرے گا۔ 
‏ہیئت کے عروج سے مصر بہت ڈرا ہوا ہے۔ ہیئت کی ہیئت ترکیبی زیادہ تر اخوان المسلمون سے عبارت ہے لیکن اس میں سلفی دھڑے بھی ہیں اور متنوع جہادی نظریات رکھنے والے کئی دوسرے گروہ بھی ہیں۔ ان کے علاوہ غیر نظریاتی لیکن قوم پرست شامی مسلمان بھی ساتھ ہیں۔ شام میں حکمرانوں کا تعلق ’نصیری‘ مذہب سے ہے جن کی آبادی کا تناسب محض 10 فیصد ہے۔ 10 فیصد عیسائی ہیں۔ مسلمان آبادی 80 فیصد ہے اور ان 80 فیصد مسلمانوں میں 77 سنی اور 3 شیعہ ہیں۔ ایران کی وجہ سے شیعہ آبادی نصیریوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ باغی تحریکوں کے ساتھ 77 فیصد عوام کی حمایت ہے، پھر یہ عوام چاہیں مذہبی ہوں یا سیکولر، قوم پرست ہوں یا جمہوریت پسند۔ 
‏10 فیصد اقلیت کا درجہ رکھنے والا مذہب مصنوعی طریقے اور خارجی مدد سے شام پر طویل عرصہ سے قابض ہے مگر اب یہ دور اپنے آخری لمحات سے گزر رہا ہے۔ مستقبل کے شام کا نقشہ کیا ہو گا، اس کا انحصار آنے والے امریکی صدر ٹرمپ کی مرضی پر ہے یا پھر شامی عوام کی مزاحمت کی نوعیت پر۔ روس کا ’ویٹو‘ بڑی حد تک بے اثر ہو گیا ہے،بظاہر!

‏(نوایے وقت میں ہفتہ کو شائع ہونے والےعبداللہ طارق سھیل کا کالم ، حقیقی صوتحال کو واضح کرتا ہے ، انہی سطور میں تقریباً دو ماہ قبل بشار راج

کے خاتمے کا قوی امکان ظاہر کیا گیا تھا )