جب دسمبر کی ٹھٹھرتی راتوں کو اپنے وطن کی امید،مستقبل اور اثاثہ کو انٹری پوائنٹس پر آگ کے آلاو بھڑکائے نعرہ زن دیکھتا ھوں تو سوچتا ھوں یہ وطن سے حکومت سے کیا مانگتے ھیں انکی عمریں تو کھیلنے کو مانگیں چاند کی تھیں لیکن آزاد جموں وکشمیر کے موجودہ وزیراعظم کے بعض فیصلوں نے انہیں اس قدر بر انگیختہ کردیا ھے کہ گرم بستروں کو چھوڑ کر وہ کھلے آسمان تلے رات گزار رھے ھیں اور حکمران وطن کو زرا بھر فکر نہیں کہ جو چنگاری انہوں نے سلگھائی ھے اب اس کے انگھارے ھر سو آگ بڑھکا رھے ھیں مجال ھے وزیراعظم کو اس کا احساس ھوا ھو کہ یہ کس کے بچے ھیں کیا مانگتے ھیں کہ صدارتی آرڈی ننس کی واپسی جسے سب سیاسی جماعتوں کے قائدین و کارکنان ،وکلاء کی تنظیموں و دیگر مکاتب فکر یہاں تک کہ ایمنیسٹی انٹرنشینل نے بھی بنیادی حقوق انسانی کے مغائر اور کالا قانون قرار دیا ھے۔ آزاد کشمیر ھائی کورٹ نے آگ پر تیل چھڑک کے اسے مزید بھڑکا دیا کہ اس کے خلاف دائر درخواست کو سماعت کئے بغیر ھی خارج کردیا کہ کون سا حق چھینا گیا ھے عدالت کو چائیے تھا کہ وہ تمام فریقین کا موقف سن کر فیصلہ کرتی لیکن پاکستان کی طرح آزاد کشمیر کی عدالتیں بھی بعض معاملات میں واضع فریق نظر آتی ھیں۔ عدالتوں کے ججز جو مراعات اور عیاشیاں انجوائے کرتے ھیں یہ اسی ریاست کے وسائل یا معاشی طور پر تنگ دست پاکستان کی دی ھوئی گرانٹ سے انکو ملتی ھیں اللہ بھلا کرے سپریم کورٹ آزاد کشمیر کا کہ انہوں نے اپیل سنتے ھی اس غیر ضروری اور بلا ضرورت مسودہ قانون( متنازعہ صدارتی آرڈیننس) کو معطل کردیا سپریم کورٹ اسکو بغیر سنے کالعدم قرار نہیں دے سکتی تھی کہ عدالت میں جب کوئی معاملہ جاتا ھے تو وہ دو طرفہ دلائل سن کر اور آئینی و قانونی جائزہ لیکر ھی فیصلہ کرنے کی پابند ھوتی ھے حکومت کے لئے ایک سنہری موقع آیا تھا کہ وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ھوئے اس قانون کو واپس لے لے اور اس قانون کی خلاف ورزی پر گرفتار شہریوں کو اپنے طور پر رھا کردے اس سے وہ بھی قانون واپس لینے کی سبکی سے بچ جاتی اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی بھی قدر سرخرو ھو جاتی دونوں ون ون win win پوزیشن پر چلے جاتے لیکن حکومت نے اب سو گنڈے بھی کھائے اور سو جوتے بھی کہ انہیں اپنے ھی صدر جسکے نام سے یہ قانون مسلط ھوا تھا اسکے خط پر واپس لیا جسکا وقت گزر چکا تھا لیکن حیف اراکین کابینہ پر کہ ان میں سے کسی کو یہ اخلاقی جرات بھی نہ ھوئی کہ وہ اس حکومت سے اختلاف کرتے ھوئے مظاھرین کی دادرسی کے لئے نہیں اپنی اپنی جماعتوں جنکے ٹکٹ پر کامیاب ھوکر وہ مراعات و تعیشات کی موجیں اڑا رھے رھے انکے لئے ریلیف مہیا کرتے۔ انکی حکومت سے علحیدگی سے انکی مراعات میں تو قدرے کمی ھوتی لیکن انکی عزت میں گراں قدر اضافہ ھو جاتا لیکن یہ کرو فر اور موج میلے بمصداق چھٹتی نہیں یہ کافر منہ سے لگی ھوئی۔
وزیراعظم کی تو بات ھی کیا ھے کل یہ وزیراعظم جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو یہ کہتا اور باور کراتا تھا کہ آپ نے میرے نعرے و نظریے کو ھی چرایا ھے یہی باتیں میں نے سینٹ کی کمیٹی کے سامنے رکھی تھیں اور آنیوالے دن یہ وعدہ معاف گواہ بن کر کہے گا کہ میں نے یہ کب کیا یہ تو مجھ سے “فلاں” نے کرایا ھے۔ مصیبت یہ ھے کہ نوشتہ دیوار کوئی نہیں پڑھتا بعد میں سب لکیریں پیٹتے ھیں کہ سانپ یہاں سے گزر گیا۔ جب پانی پلوں کے نیچے سے بہہ جائے تو واپس نہیں آتا۔
ایسے حالات میں مظاھرین سے کوئی کیا بات کرے اور ان معصوم نوجوانوں کو کوئی کیا سمجھائے کہ معاملات کس سمت بڑھ رھے ھیں اور اس سے کس کا فائدہ اور کس کا نقصان ھورھا ھے یہ کام بھی حکمرانوں کا ھوتا ھے جو ریاست کی نمائندگی کرتے ھیں۔
کوئی ناصح،مصلح اور ھمدرد ایسے ماحول میں بات کرسکتا ھے جب سننے کی صلاحیتیں بیدار اور انسانی جبلت میں شر پسندی و ناریت خوابیدہ ھو جب آگ زہن و جسم کو تپش فراھم کر رھی ھو تو اسوقت پانی کا تصور لانا اور سمجھانا مشکل ھوتا ھے کہ اصل زندگی آگ نہیں پانی ھے نفرت نہیں محبت ھے اشتعال نہیں سمجھداری ھے الجھن نہیں سلجھن ھے۔
والدین سے بھی اگر اولاد سے کسی وقت کوئی زیادتی ھو جائے تو اولاد بھی اس قدر امادہ بغاوت ھوجاتی ھے کہ کہہ دیتی ھے کہ تم نے ھمارے لئے کیا ھی کیا ھے وہ یہ سب بھول جاتی ھے کہ ایک نطفہ سے جوانی تک کے مرحلہ زیست میں والدین کا کیا کیا کردار رھا ھوتا ھے کیا جیا تکالیف برداشت کی ھوتی ھیں یہی صورت حال ایک شہری کی بھی ریاست سے ھوجاتی ھے۔ اور ایسے ھی جذباتی عمل سے ریاستیں وجود میں آتی ھیں اور مٹ بھی جاتی ھیں پاکستان کا وجود مسعود اور منصہ شہود ھو یا آزاد جموں و کشمیر کا یہ خطہ مہرباں ھو کہ ھم نے ایسے ھی مشتعل جذبات میں لے کر رہیں گے پاکستان بٹ کر رھے گا ھندوستان اور کشمیر بنے گا پاکستان حاصل کیا اور ایسے ھی 1971 میں دولخت کیا اور اس سال 2024 میں وھی بنگلہ دیش جو جنہوں نے تشکیل دیا تھا انکی اولادوں نے پچاس سال بعد انکے نشانات تک مٹا دئیے۔ اھل پاکستان نے نے یہ سفر 24 اور بنگالیوں نے 43 سالوں میں طے کیا فرق یہ ھے کہ ھم نے ملک دو لخت کیا انہوں نے ملک تو قائم رکھا ملک بنانے والوں کی نشانیوں کو ملیامیٹ کردیا۔
میں سوچتا ھوں کہ جس دریائے جہلم کے کنارے یہ مشتعل قافلے آج ٹھٹھر رھے ھیں اسی دریائے جہلم کو تیر کر یا کشتیوں میں سوار ھوکر ھمارے اکابر نے اسلحہ لایا ڈوگرا فوج کو مار بھگایا آج ان ھی کی اولاد یہاں خیمہ زن بھی نہیں کھلے آسمان تلے آلاو سلگھائے بیٹھی نظر آتی ھے وہ اس وقت سالار قافلہ تھے علمبردار آزادی تھے یہ اسوقت ان قربانیوں کو بھول کر ان ھی پر مطعون ھیں ان ھی کا دیا پرچم ھاتھوں میں تھامے پرچم بردار ھیں۔ اس وقت انکے پاس پرچم نہیں تھا علم آزادی تھا آج ھمارے پاس جو پرچم ھے یہ ان ھی کی قربانیوں کا ثمر بصورت وطن ھے۔ اس وطن کا رقبہ تو چار ھزار مربع میل ھے لیکن یہاں حاصل مراعات و سہولیات وطن سے بھی بڑھکر ھیں۔ اس وطن کا پاکستان محافظ و پشتیبان ھے۔ اسوقت یہی تھوراڑ 36 شہدا کے خون سے سیراب تھا آج یہی تھوراڑ جو ڈوگرا فوج کی ایک ظلم کش پولیس چوکی اور ایک پرائمری سکول پر مشتمل تھا آج یہاں کیا کیا سہولیات دستیاب ھیں۔ انسانی فطرت قران نے یہی بیان فرمائی اس میں ھم میں سے کسی کا قصور نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ھے ان الانسان لہ ربہ لکنود (یقیناً انسان اپنے رب کا نا شکرا ھے) ھم بھی کفران نعمت کرتے نہیں تھکتے ورنہ تقابل و توازن کریں تو تشکر و صبر کا درس ملتا ھے جب بے صبری اور عدم برداشت غالب ھو جائے تو تشکر و احسان اللہ کا یاد نہیں رھتا تو والدین عزیز واقارب و پڑوسیوں کا کہاں یاد رھتا ھے۔انکو یاد نہیں رھتا جنکے اندر و باھر الاؤ سلگھ رھے ھیں یا سلگھائے جارھے ھیں لیکن ایک خاموش اور لا تعلق لوگوں کی ایک خطیر تعداد ھے جنکی خاموشی و نظر اندازی کے باعث یہ سب کچھ پروان چڑھ رھا ھے انکے سوچنے کو ایک لمحہ فکریہ ھے کہ وہ بھی اپنا کردار ادا کریں وہ بھی باھر نکلیں وہ بھی آواز بلند کریں۔آواز بنیں۔
یہ بھی سوچیں کہ کیا کسی پول سے جھنڈا اتارنے سے یا لگانے سے ھم آزاد ھو جائیں گے یا اس عمل سے کسی پر کوئی فرق پڑے گا۔ ھمارا یہ خطہ land locked ھے آزاد پتن،ٹائیں ڈھلکوٹ،کوھالہ،ھولاڑ ھمیں دریا پار کرنے ھوتے ھیں جنکے لئے پل موجود ھیں ایک برار کوٹ مظفرآباد کا زمینی راستہ ھے جہاں بیریر ھے.1992 کے سیلاب میں یہ سب پل ٹوٹ گئے تھے کون ھمارے ریسکیو کو آیا تھا 2005 کے زلزلے میں کون ھماری مدد کو پہنچا تھا کون ھے جو ھمارا نام پیار سے لیتا ھے، ھمیں ھر وہ سہولت بلکہ اپنے سے بھی بڑھکر سہولیات ھمیں دیتا ھے ھمیں شناخت بھی دیتا ھے دنیا میں ھمارا نام بھی کاز بھی مسلسل الاپتا ھے ھم تو ایک ڈویثرن ضلع سے بھی کم ھیں ھمارے ڈیڑھ لاکھ سے زاھد ملازمین کا بوجھ ان جھنڈے برداروں کا بوجھ اور لاڈ، کون برداشت کرتا ھے کون مقبوضہ کشمیر کے شہید برھان وانی سمیت لاکھوں شہدا و قیدیوں کا ذکر اقوام متحدہ میں کرتا ھے، کون ھماری حق خودارادیت کی وکالت کرتا ھے بھارت نے تو کشمیر کو اپنے اندر ضم کرکے دفعہ 370/35A کو ھی ختم کردیا ھے یہ پاکستان ھی ھے جس نے اپنے آئین کے آرٹیکل 257 میں ھمارے حق خودارادیت کی ضمانت فراھم کی ھے۔ کون ھے جس نے ھمارے لئے اپنی سلامتی کو داؤ پر لگایا ھے
کون ھے جس نے اپنا پیٹ کاٹ کر جب دیکھا کہ ھمیں سستا آٹا اور سستی بجلی کی مشکلات کا سامنا ھے فوری طور پر 22 ارب فراھم کئے۔ھم اپنے منفی نعروں سے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ھیں لیکن یہ نفرتیں بڑھا کر اپنے خلاف نفرتیں پیدا کرسکتے ھیں۔ کیا ھم ان لوگوں کا شکریہ ادا کرسکتے ھیں جو برف پوش پہاڑوں سے لیکر میدانوں میں ھماری حفاظت پر مامور ھیں ورنہ بھارت ھمیں لقمہ تر بنانے میں کتنی دیر لگائے گا اس نے ریاست کشمیر کو اپنے اندر ضم کرلیا پوری دنیا نے اسکا کیا کر لیا اور دنیا میں کو سوائے پاکستان کے کون ھے جو کشمیریوں کا نام لے رھا ھے۔کیا ھم ان روحوں کی جواب دھی کرسکتے ھیں جنہوں نے اس وطن کی آزادی کے لئے اپنی جانوں کا بے دریغ نذرانہ پیش کیا اور آج بھی کر رھے ھیں کیا ھم ان اپنے عزیزوں، مائیں اپنے بیٹوں،بہنیں اپنے بھائیوں،بیوائیں اپنے سہاگوں اور معصوم بچے اپنے باپوں کا سوال ھم سے نہیں کریں گے جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی ھے اور جب چاک و چوبند فوجی دستہ انکی قبروں پر آکر سلامی Gaurd of Honour پیش کرتے ھیں تو ھم غم و حزن کے باوجود ایک فخر محسوس کرتے ھیں کہنے کو تو لاتعداد و بے شمار دلیلیں نہیں حقیقتیں ھیں جو ھمارے سوچنے و سمجھنے کے لئے ھیں لیکن اس سب کے باجود میرا اپنا موقف یہ ھے کہ ان وطن کے سجیلے جوانوں کو ان بوڑھوں کو جو اس سردی میں ھمارے حقوق کے نام پر آزادی کے نام پر سراپا احتجاج ھیں سنا جائے، انکا دکھ، انکا درد،انکا کرب محسوس و شئیر کیا جائے اور ایک واحد شخص جسے ناگزیر سمجھا جا رھا ھے جسکی وجہ سے یہ آلاؤ دہکے ھیں یہ صورت حال پیدا ھوئی ھے وہ اس قدر ناگزیر نہیں ھے اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ آزاد کشمیر کے لوگوں کے جو اصل مسائل ھیں انکو ایڈرس کیا جائے خواہ وہ بجلی کا مسئلہ ھے یا بے روزگاری کا مسئلہ ھے لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ یا رسل و رسائل کا مسئلہ ھے سرکاری مراعات و تعیشات میں کمی کا مسئلہ ھے بہتر نمائیندگی کا مسئلہ ھے یا اختیار کا مسئلہ ھے یہ معاملات انتظامی سطح پر اس طرح حل ھونے کے اب نہیں رھے تمام سٹیک ھولڈرز کو اعتماد میں لیکر اصل درد کی نشان دھی ضروری ھے کہ انکے پیچھے اور انکے اندر یہ بے چینی،یہ نفرت کیوں سلگ رھی ھے کہ یہاں ایسا تو کبھی نہیں تھا کبھی نہیں تھا۔