ہمارے مدرسوں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلا جارہا ہے مگر ہم صبر سے کام لے رہے ہیں، فضل الرحمان

نوشہرہ(صباح نیوز)جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ آپ ہمارے مدرسوں کو شدت پسندی اور انتہا پسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں مگر ہم صبر سے کام لے رہے ہیں،بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ جتنا چاہیں ہمدردی کے الفاظ استعمال کریں ہمیں ان پر کوئی اعتماد نہیں۔ نوشہرہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم نے آپ کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا، آپ نے ہمارے خلاف جنگ شروع کردی، ہم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی اطاعت کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ سے عافیت مانگا کرو، دشمن کا سامنا کرنے کی خواہش نہ کیا کرو، لیکن اگر سامنا ہوجائے تو پھر ڈٹ جائو، اب سامنا ہوچکا ہے تو ہم ڈٹے رہیں گے۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ حکومت مدارس کو شدت اور انتہا پسندی کی جانب دھکیل رہی ہے، یہ تو ہم ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے آئین پاکستان کے ساتھ چلنا ہے، ریاست سے تصادم نہیں چاہتے، آپ الزام لگاکر ہمیں بدظن کرنا چاہتے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کوئی ایسا فورم بھی نہیں ہے جہاں یہ بحث کی جاسکے کہ دہشتگردی آپ پیدا کر رہے ہیں یا ہم ؟ میرے بھائیو ! یہ ایک جنگ ہے، آپ نے جدیدیت کے نام پر الحاد کا اور ارتداد کا راستہ روکنا ہے، تو پھر مدرسے کی بقا انتہائی ضروری ہے, جبری اصلاحات گھڑ کے ہم پر مسلط کی جارہی ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ہم تھک جائیں گے؟ تم نے یہ سبق نہیں پڑھا، ہم نے احادیث میں یہ سبق پڑھا ہے، ہم تو قیامت تک جہاد کے لیے تیار ہیں، اسی راستے سے تو ہم نے جنت تک پہنچنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیلنج کرتا ہوں ان جدید دور کے لوگوں کولے آئیں، میرے مدرسے کا طالب علم کالج، یونیورسٹی کا امتحان دینے کو تیار ہے، آپ بھی اپنے کالجز اور جامعات کے بچوں کو دینی امتحان میں بٹھائیں، تاکہ پتا لگ جائے کہ کس کو کس شعبے کا علم زیادہ ہے، ہم مدارس میں بچوں کو عصری علوم بھی پڑھاتے ہیں، جدید عصری اداروں میں دین پڑھایا جاتا ہے؟فضل الرحمن نے کہا کہ ماضی میں برصغیر میں بھی دارالعلوم دیو بند نے عصری علوم کا انکار نہیں کیا تھا، بلکہ علی گڑھ یونیورسٹی نے دینی علوم پڑھانے سے انکار کیا تھا، مدارس کیوں وجود میں آئے؟ بر صغیر کے علاوہ دنیا میں اس طرح کے مدارس کیوں نہیں ہیں؟ اسلام اور علما تو ہر جگہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پشاور میں اسلامیہ کالج ہے، اس کا جب آغاز ہوا تھا تو اس کا نام دارالعلوم الاسلامیہ تھا، لیکن سرکار نے اس کا کیا حشر کیا ؟ یہ سرکاری مدرسہ تھا، بہاولپور میں نواب آف بہاولپور نے جس جامعہ کی بنیاد رکھی تھی، اس میں مولانا شمس الحق افغانی جیسے بڑے پائے کے علما درس دیا کرتے تھے جب سرکار نے وہاں قبضہ کیا تو آج پوچھیں کہ کیا حال ہے۔انہوں نے کہا کہ اب تک آپ کے ہاتھ جو مدارس آئے ہیں، آپ نے ان کا خاتمہ کرکے چھوڑا ہے، مزید یہ چاہتے ہیں کہ ہم اور مدارس ان کو دے دیں ؟ ہم ریاست سے ٹکرائو نہیں چاہتے، ہم کہتے ہیں ہماری رجسٹریشن کریں، بینک اکائونٹ کھولیں، لیکن آپ ہمارے اکائونٹ بند کردیتے ہیں، اب یہ بتائیں کہ رجسٹرڈ مدارس بہتر ہیں یا غیر رجسٹرڈ؟ لائسنس یافتہ اسلحہ غیرقانونی ہتھیاروں سے بہتر ہوتا ہے، خطرات کم ہوجاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن سے قبل پی ڈی ایم کی حکومت بنی، پیپلز پارٹی اس میں شامل تھی اور شہبازوزیراعظم تھے، طویل بحث کے بعد اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ مدارس کو اختیار ہوگا کہ جس کے ساتھ چاہیں رجسٹریشن کرائیں گے ہم نے اس وقت بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا تھا، پھر ڈرافٹ بنا اور 1860 سوسائٹی ایکٹ کے تحت ہم نے ایک شق کا اضافہ کیا یہ ڈرافٹ ہم نے نہیں حکومت نے تیار کیا تھا اس پر اتفاق رائے ہوا تھا بل اسمبلی سے پاس ہوا یہ بل اسمبلی میں پیش ہوا مگر کسی نے روک دیا، ابھی 26 ویں ترمیم میں اس متفقہ ڈرافٹ پر قانون سازی چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں وہ بل ایکٹ بنے۔

انہوں نے کہا کہ 26 ویں ترمیم میں مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل میں بغیر کسی تبدیلی کے ہم نے اسے قبول کیا، تاہم اب تک یہ بل ایکٹ نہیں بن سکا، نہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اب بھی حکومت میں ہے، ایک ماہ تک مذاکرات کیے اور مجھے انگیج رکھا گیا، پانچ گھنٹے مذاکرات کے بعد یہ بل پاس ہوا اگلے روز میاں نواز شریف کے ساتھ پانچ گھنٹے مذاکرات ہوئے اور بل پر اتفاق رائے قائم ہوا،  پہلے سینٹ بل آیا، 26 ویں ترمیم کا بل 56 شقوں پر مشتمل تھا پھر ہم نے اپنے پانچ نکات شامل کیے، بل پاس ہوگیا اور اب ایوان صدر سے اعتراضات آرہے ہیں، لاہور اجلاس میں صدر اور بلاول موجود تھے اب اعتراض لگانا درست نہیں۔