امید اللہ کا کہنا ہے کہ، ’’یہ ایک غلط فہمی ہے کہ افغانوں کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ افغانستان میں بڑے بڑے کاروباری افراد ہیں جن کے بیرون ملک بڑے کاروبار ہیں۔ یہاں ایسے گھر بھی ہیں جن کی قیمتیں ملین ڈالرز میں ہیں۔‘‘
افغان اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں
افغانستان میں طویل عرصے کی جنگ اور تباہی کے بعد اب حالات بہتر ہو گئے ہیں۔ اس لیے سالوں تک بیرون ملک ملازمت کرنے والے افغان باشندے اب اپنے وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔
غلام محمد حق دوست کے مطابق، طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کابل میں لوگ سرمایہ کاری کرنے سے ڈرتے تھے۔ تاہم اب طالبان حکومت کے اقدامات کے باعث سرمایہ کاری کے لیے ماحول سازگار ہوا ہے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے اور بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد تشدد میں کمی کے باعث شہر کے حالات میں بہتری آئی ہے۔ اس کے ساتھ طالبان نے قانونی و تجارتی معاملات میں سخت قوانین کے نفاذ کے ساتھ کرپشن کے خاتمے کا عہد کیا ہے۔
حق دوست اس بات پر خوش ہیں کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد انتظامی امور میں کسی قسم کی پیچیدگیاں یا تاخیر نہیں ہوتی۔
حق دوست نے بتایا کہ، ’’گزشتہ تین سالوں میں جائیداد کی قیمتوں میں تقریباً 40 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس دوران انہوں نے 400 سے زائد جائیدادیں فروخت کی ہیں۔ جبکہ پہلے ایسا نہیں تھا۔‘‘
امید اللہ اور حق دوست کے گاہک چاہتے ہیں کہ گھر میں ایک باغ، ورزش کے لیے جم، گرم پانی کا حمام، سوئمنگ پول، مہمانوں کے لیے کمرے اور کم از کم ایک باورچی خانہ ہو۔ مہمان نوازی افغان ثقافت کا ایک اہم حصّہ ہے اور اس گھروں کی تعمیر میں بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ گھر میں مہمانوں کے لیے بھی مناسب انتظام موجود ہو۔
حق دوست کے زیادہ تر گاہکوں کا تعلق بیرون ملک سے ہے۔ ان کے ذوق و پسند بھی عالمی معیار کے مطابق ہیں۔ وہ گھروں میں ڈائننگ ٹیبل اور بیڈ چاہتے ہیں جبکہ افغانستان میں عام طور پر لوگ فرش پر سوتے اور کھانا کھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب گھر بھی ان گاہکوں کی ترجیحات کے مطابق تعمیر کیے جا رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ مقامی حکام بھی شہر کو مزید پرکشش اور رہنے کے قابل بنانے کے لیے سڑکوں کی تعمیر اور مرمت، سٹریٹ لائٹس کی تنصیب، درخت لگانے اور کچرا صاف کرنے میں مصروف ہیں۔ مزید برآں وہ شہریوں کو مناسب قیمتوں پر رہائشی سہولیات کی فراہمی کے لیے بھی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
کابل سے باہر پرتعیش رہائش
جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں، وہ شہر کے باہر قرغہ کے آبی ذخیرے کے کنارے، شاندار اور مہنگے گھروں کا انتخاب کرتے ہیں۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد، خواتین اس علاقے میں اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ آتی تو ہیں لیکن وہ زیادہ دیر یہاں قیام نہیں کرتیں۔ کیونکہ کچھ حکومتی اہلکار آبی ذخیرے کے قریب واقع ایک چیک پوائنٹ پر تعینات ہیں۔
ایک افغان شہری اراش اسد بھی ایک گھر فروخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ ان کے چچا کی ملکیت ہے۔ 4000 مربع میٹر کے رقبے پر پھیلی اس جائیداد کی قیمت آٹھ لاکھ ڈالر ہے۔
اراش اسد کہتے ہیں کہ، ’’لوگ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں روزگار نہیں ہے۔ تاہم افغانوں نے گزشتہ برسوں میں جائز اور ناجائز طریقوں سے بہت پیسہ کمایا ہے۔‘‘
بشکریہ : ڈی ڈبلیو