خیبرپختونخوا میں سال 2023 کے 898 کےمقابلے میں1401 افراد میں ایڈزکے وائرس کی نشاندہی ہوئی ہے۔ جن میں چارہیلتھ ورکزسمیت 692 مرد،242 خواتین، 49 ٹرانس جینڈرز،38 بچے اور 20 بچیاں شامل ہیں۔ پختونخوامیں یہ تعداد اس سے زیادہ ہے تاہم ایڈزکی بیماری کوغیرمحفوظ جنسی روابط کےساتھ جوڑے جانے کی وجہ سے متاثرہ لوگ سامنے نہیں آتے۔ پختونخوا کے ضم قبائلی اضلاع میں یہ تعداد اوربھی زیادہ ہے جہاں بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ محکمہ صحت کے پاس رجسٹرڈ ڈیٹا کے مطابق قبائلی اضلاع میں 1256 افراد ایڈزسے متاثر ہیں۔
ڈائریکٹرایچ آئی وی کنٹرول پروگرام ، ڈاکٹر طارق حیات کا کہنا ہے، ”آگاہی کے لیے سیمنار ورکشاپس، واک اورتعلیمی اداروں میں مذاکروں کےانعقاد سے کافی حد تک لوگوں میں شعورپیدا ہوگیا ہے اور جولوگ پہلےاس بیماری کوچھپاتے تھےاب ان مراکز سے تشخیص کے لیے رابطہ کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آگاہی کے لیے محکمہ صحت، اطلاعات وتعلقات عامہ کے اہلکاروں پرمشتمل کمیٹی بنارہے ہیں جوآگاہی میں کردار ادا کرسکیں گے۔ ڈاکٹرطارق حیات کا کہنا تھا کہ بروقت علاج سے بچا جاسکتا ہےانکا مزید کہنا تھا کہ طبی عملےکوبھی حفاظتی اقدامات کے لیے گائیڈ لائن فراہم کی جاتی ہے۔ گذشتہ سال ان مراکز میں ایک ہزارافراد معائنے کے لیے آئے تھے لیکن سال رواں کے دوران ابھی تک دوہزارسے زیادہ مرد و خواتین یہاں وزٹ کرچکے ہیں۔‘‘
دارالحکومت پشاور کےحیات آباد میڈیکل کمپلکس میں پیتھالوجسٹ شبیرخان سے جب ڈی ڈبلیو نے پختونخوا میں ایڈزکے مریضوں میں اضافے کی وجہ کے حوالے سے پوچھا توانکا کہنا تھا، ”پہلے یہ مریض چھپے تھے یہ شرم کے باعث خاموش رہے اب جب لوگوں کوپتہ چلا کہ حکومت ٹسٹ اورعلاج مفت کررہی ہے تولوگ آتے ہیں خود کا بھی ٹسٹ کروا تے ہیں اوراپنی فیملی کا بھی خون ٹسٹ کرواتے ہیں۔ پختونخوا میں ایڈز سے متاثرہ افراد میں اضافے کی دوسری وجہ حکومت کا 2023 میں جاری کردہ حکم نامہ بنی جس میں کسی بھی طرح کی سرجری سے قبل ایچ آئی وی اوردیگرٹسٹ لازمی قراردیئے گئے تھے۔ ایسے میں متاثرہ افراد کی بڑی تعداد آنے لگی۔ شبیرخان کا مزید کہنا تھا کہ، ”زیادہ ترلوگ انتقال خون، سرجری، دانتوں کی بیماری کاغیرمستند افراد سے علاج اوربالخصوص سرنج کے زریعے منشیات کے استعمال کی وجہ سے اس وائرس کا شکار ہوئے۔ آگاہی مہم کی وجہ سے لوگوں کومعلوم ہوا کہ اب اسکا علاج بھی ہے تو وہ رجسٹریشن کروانے لگے۔‘‘
جب ان مراکز میں کوئی بھی مریض آتا ہے توان کے ٹسٹ مفت کیے جاتے ہیں اور اگرانہیں ایڈز ہو تو حکومت کی جانب سےانہیں ادویات مفت فراہم کی جاتی ہیں ۔ ان کے خاندان کی سکریننگ بھی مفت کی جاتی ہے۔ پختونخواحکومت کی جانب سے فوڈ سپورٹ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ 2005 میں پورے صوبے میں صرف دو تشخیصی مراکز تھے۔ 2023 میں یہ تعداد 7 اوراب 13 ہوگئی ہے۔ ایڈز کنٹرول یونٹ کے پیتھالوجسٹ شبیر خان کا کہنا تھا، ”ان مراکزمیں انتہائی مہنگے ڈائیگناسٹک ٹسٹ مفت ہوتے ہیں اورہرچھ ماہ بعد کیے جانے والے ٹسٹ بھی مفت ہوتے ہیں۔ انکا مزید کہنا تھا کہ پشاورمیں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں دیگرعلاقوں کے لوگ آکرآباد ہوئے ہیں اس وجہ سے یہاں مریضوں کی تعداد زیادہ ہے۔‘‘
نشے سے پاک پشاور مہم
دارالحکومت پشاورمیں ضلعی انتظامیہ نے حال ہی میں نشہ کرنے والے افراد کوحراست میں لے کر بحالی مرکز میں انکے علاج کا سلسلہ شروع کیا ہے لیکن انہیں طبی معائنے کے لیے انکے مختلف ٹسٹ کیے جاتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے ترجمان کے مطابق اب تک ان افراد میں 32 افراد کا ایچ آئی وی پازیٹیو نکلا ہے جبکہ 40 سے زیادہ افراد کو ہیپاٹائٹس بی اورسی ہے۔ ان میں زیادہ ترسرنج کے زریعے منشیات استعمال کرتے تھے۔ اس مہم کے دوران نشہ کرنے والے دوہزار سے زیادہ افراد کومرحلہ وار حراست میں لے کر انہیں بحالی مراکزمیں داخل کرکےعلاج فراہم کرنے سمیت انہیں ہنرسکھایا جارہا ہے۔ ضلعی انتظامیہ سمیت اس مہم میں پشاورپولیس اورمحکمہ سماجی بہبود کے اہلکار حصہ لے رہے ہیں ۔
سماجی رویے اور نفسیاتی مسائل
خیبرپختونخوا کی مخصوص روایات اور ایڈز کو محض جنسی روابط کے ساتھ جوڑنے کی وجہ سے ہر متاثرہ شخص سامنے آنے سے کتراتا ہے۔ کیمرے کے سامنے نہ آنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلکس میں ادویات لینے کے لیے آنے والے خالد(فرضی نام) نے ڈوئچے ویلے کو بتایا ،”ہم ایک دوردراز کے گاؤں میں رہتے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ یہ بیماری مجھے کب اورکیسے لگی لیکن اس وقت معلوم ہواجب میں بیرون ملک جانے کے لیے سارے میڈیکل ٹسٹ کروانے کا کہا گیا۔
بشکریہ : ڈی ڈبلیو